اسلام آباد ( رپورٹ ،جاوید شہزاد سے ) وزیر اعظم عمران خان نے وزارت دفاع ،ایو ی ایشن ڈویژن سمیت تینوں مسلح افواج کے سروسز چیفس کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ ہیں گہرے سمندر میں تیل اور گیس کے بھاری ذخائر کی تلاش کے حوالے سے آف شور انڈس سی کے سائیڈ ٹریک پر فیصلہ کن ڈرلنگ آپریشن میں اپنی اپنی معاونت اور ہر ممکن تعاون سمیت کسی بھی ھنگامی صورت حال کے حوالے سے ریسکو آپریشن کی تیاریوں کو جلد از جلد حتمی شکل دی جائے اور گہر ے سمندر میں ڈرلنگ میں مصروف عمل ملکی و غیر ملکی آئلز کمپنیوں کے ساتتھ موثر کوارڈینشن او قریبی رابطے فوری طور پر قائم کیے جایئں۔ یہ ہدایات وزیر اعظم عمران خان نے وزارت دفاع کے ذریعے تینوں مسلح افواج کے سروسز چیفس اور ایوی ایشن ڈویژن کو جاری کیں ہیں اور دوسری جانب گہرے سمندر میں پاکستان کو تیل اور گیس کے بھاری ذخائرملنے کا عمل بھی اپنے یقینی اور تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم 10 سے 15 اپریل کے درمیان قوم کو خوشخبری دینے کا باقاعدہ اعلان کرسکتے ہیں۔ وزارت پیٹرولیم اپریل کے دوسرے ہفتے میں گہرے سمندر سے تیل اور گیس کے بھاری ذخائر کے بارے میں اپنی فائنل رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کر ئے گئی جس کی روشنی میں وزیر اعظم اپریل کے تیسرے ہفتے کے درمیان قوم سے خطاب میں تیل اور گیس کے ذخائر ملنے کا باضابطہ اعلان کرسکتے ہیں۔ گہرے سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش میں پاکستان نیوی نے بھی اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کے ذریعے ملک میں بلیو اکنامی کے کلچر کو پہلی بار اجاگر کر نے کا عزاز نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کے حصے میں آیا ہے، گہرے سمندر میں اب تک ہونے والی ڈرلنگ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہاں سے پاکستان کو تیل اور گیس کے بھاری ذخائر ملنے کی امکانات 90فصید سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں اور وہاں سے ملنے والے ذخائر ملک اور قوم کی تقدیر بھی بدل سکتے ہیں اور انکی بدولت پاکستان اگلے سو سال تک بھی توانائی ،معاشی اور اقتصادی ضررویات پوری کرسکے گا ۔وزارت پیٹرولیم نے بھی گہر ے سمندر میں کیکڑا آئل ویل سے تیل اور گیس کے ذخائر ملنے کے مثبت اشاروں کی تصدیق کر دی ہے اور امکان ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کو تیل کے بڑے ذخیرے کی دریافت کی صورت میں ایک قسم کا جیک پاٹ (انعام) ملنے والا ہے۔اس وقت پاکستان کے گہرے سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش میں ای این آئی ، ایگزون موبل اور او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل مشترکہ طور پر ایک جوائنٹ وینچر کے تحت اس منصوبے پر کام میں مصروف عمل ہیں اور اس منصوبے کی سربراہی میں قائم کنسورشیم کی جانب سے کی جانے والی آف شور ڈرلنگ کے حوالے سے ہماری توقعات اور امیدیں سچ ثابت ہونے کے قو ی اور روشن امکانات ظاہر ہوچکے ہیں۔ وزارت پیٹرولیم کے اعلی عہدیدار نے کہا ہے ک کیکڑا تیل کے کنواں کی اب تک 4 ہزار 9 سو میٹرز تک ڈرلنگ کی گئی ہے جس کے بعد مذید گہرائی تک جانے مین مشکلات سامنے آئی ہیں جس پر کپمنیوں کی قیادت اور آئلزاینڈ گیس کے ماہرین کی مشاورت کے بعد فصیلہ کیا گیا ہے کہ کیکڑاآئل کے کنواں سے ڈرلنگ سائیڈ ٹریک پر کی جائے تاکہ گہرے سمندر میں تیل اور گیس کے بھاری ذخائر تک رسائی حاصل کی جاسکے اور سایئڈ ٹریک پر جنگی بنیادوں پر ڈرلنگ کاعمل شروع کر دیا گیا ہے۔ وزارت پیٹرولیم کے اعلی عہدیدار کا کہنا تھا کہ تقربیا ساڑھے 5 ہزار میٹز زتک ڈرلنگ کے بعد اصل صورت حال سامنے آئے گی جبکہ 1923 میٹر سمندر کے پانی کی گہرائی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اپریل کے دوسرے ہفتے میں اس ھوالے سے ٹیسٹ رپورٹس وزارت کو موصول ہوجایئں گیئں جس کی روشی میں حتمی تخمیہ لگایا جاسکے گا کہ وہاں پر تیل اور گیس کے کتنے ذخائر موجود ہیں اور انکی مقدار اور مالیت کیا ہے ۔گہرے سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش کے اس میگا پروجیکٹ پر 13 فرورہ 2019 کو کام شروع کیا گیا ہے اور کیکڑاآئل کے کنواں کے اس منصوبے پر 76 ملین ڈالرز کی لاگت آئے گی۔ ڈرلنگ کمپنیز کے اعلی حکام کا کہنا ہے کہ راوں ماہ کے اختتام میں بڑے گیس اور تیل کے ذخائر کے متعلق اچھی خبر آنے والی ہے جس کا اعلان بھی جلد متوقع ہے ہم پہلے سے ہی زبردست گہرائی میں جا چکے ہیں تیل کا ذخیرہ سعودی عرب اور قطر سے مشترکہ طور پر بڑا ہے جبکہ گیس کی تکنیکی وجوہات کے بنا پر ابھی تک اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے ۔سندھ بلاک جی کے ذخائر کی 10 بلاکس ہیں، ان بلاکس میں سے چار متصل ہیں اور 6 الگ بلاکس ہیں. ہر بلاک تقریبا 250 سے 300 مربع میٹر ہے. ہر بلاک کے لئے کئی سوراخ کرنے والی پوائنٹس موجود ہیں، اس کی گہرائی 5،200 میٹر سے 5،800 میٹر تک ہوتی ہے. اس موقع پر جہاں ڈرلنگ کی جا رہی ہے وہ ایک آزاد بلاک ہے. اس بلاک سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 500 + ملین بیرل تیل اور گیس کی 20 بی سی ایف پیدا ہونے کا اندازہ ہے . تیل بہترین معیار کا ہے اعلی درجے کی گیس بھی متوقع ہے ۔دوسری جانب یہ امر قابل ذکر ہے کہ چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے اپنی کمانڈ کا چارج سنبھا لنے کے بعد انہوں نے پاکستان کی سمندری حدود کی نگہبانی کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کو سمندری وسائل سے فائدہ پہنچانے کا بھی بیڑا اٹھا لیا ہے۔اس حوالے سے ظفر محمود عباسی خاصے سرگرم بھی نظر آرہے ہیں جس کی واضح مثال یہ ہے کہ اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد وزیرِ اعظم کئی بریفنگ میں انہوں نے پاکستان کے سمندری وسائل اور اس سے وابستہ معاشی فوائد پر تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب وہ اپنے سمندری معاشی ایجنڈے یا بلیو اکانومی ایجنڈے کو عام کرنے کے لیے ایوانِ تجارت و صنعت کا دورہ کررہے ہیں۔ سب سے پہلے عباسی صاحب نے اسلام آباد ایوانِ تجارت و صنعت کا دورہ کیا جس کے بعد انہوں نے کراچی ایوانِ تجارت و صنعت میں بھی اپنا وژن پیش کیا۔ کراچی ایوانِ تجارت و صنعت میں جہاں انہوں نے سمندری معیشت سے متعلق اپنی کاروباری سرگرمیوں کا نقشہ پیش کیا اور ان کے اس کلیدی کردار کی بدولت پاکستان میں بلیو اکنامی کا کلچر عام ہوا ہے اور اس بار ملک اور قوم کی تقدیر بھی میری ٹائم کلچر کی بدولت ہی بدلنے والی ہے اور گہرے سمندر سے تیل اور گیس کی تلاش میں پاکستان نیوی نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور نیوی کی موثر کردار اور بھرپور تعاون کی بدولت ہی پاکستان کے عوام کو جلد ایک خوشخبری ملنے والی ہے ۔وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان کو اپنے سمندری خزانے کی صورت اربوں ڈالر کی معیشت کی ترقی پر توجہ دینی ہوگی ، میری ٹائم جامع سکیورٹی پالیسی اور ’بلیو اکانومی‘ پر موثر عمل درآمد سے ملک کے معاشی اور سلامتی سے متعلق مفادات کی پاسداری کو یقینی بنایاجاسکتا ہے۔ علاقائی سمندروں کے پروگرام برائے بحری گورننس اور مینجمنٹ کے جدید خیال کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ دنیا کا 70 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے جس کے ذریعے دنیا کی تقریبا 91 فیصد تجارت ہوتی ہے جسے ’بلیو اکانومی‘ کی نئی اصطلاح دی گئی ہے۔ سمندر کے اندر قدرت نے خوراک کے ذخائر کے علاوہ قیمتی خزانے چھپا رکھے ہیں جس سے پاکستان استفادہ کرکے نہ صرف اپنی معیشت کو مضبوط بناسکتا ہے بلکہ روزگار کے بھی بڑے پیمانے پر مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ سمندر 32 فیصد ہائیڈروکاربنز فراہم کرنے کے علاوہ بائیو ماس انرجی اور دیگر انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا بیش قیمت ذریعہ ہے۔ اس سے خوراک اور روزگار میسرآتا ہے۔ سیاحت، تجارت کا بڑا حصہ بھی اس سے جُڑا ہوا ہے۔ دنیا کی تقریبا60 فیصد آبادی ساحل اور سمندروں کے سو کلومیٹر کے دائرے میں آباد ہے۔ اس سے سمندروں کی معاشی قدروقیمت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ساحل اور سمندر سے جُڑی اس معیشت کو ’بلیو اکانومی‘ کانام دیا گیا ہے۔ یہ نام گنٹر پالی نے 2010ءمیں اقوام متحدہ کی پائیدار ترقی کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں متعارف کرایاتھا۔ ماہرین کے مطابق بحر ہند سیاسی اور معاشی لحاظ سے بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ سمندری راستوں کی حفاظت دفاعی خودمختاری اور معاشی مواقع کے نکتہ نظر سے بہت اہم ہے جس کے لئے خطے میں استحکام ناگزیر ہے۔ایٹلانٹک اور پسیفک کے بعد بحرہند دنیا کا تیسرا بڑا سمندر ہے۔ اس کے کنارے آباد ممالک کی آبادی کی ترقی اور بقاءسمندر پر منحصر ہے۔ یہ افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیاءکے ساحلوں کو جوڑتا ہے۔ اس طرح یہ دو سمندروں کے درمیان معاشی و تجارتی سفری شاہراہ بھی فراہم کرتا ہے۔ بحیرہ روم، بحر احمر، باب المندب، نہر سوئز اور ملاکا کے بحری درے سے ہوتے ہوئے پسیفک سمندر تک یہ بہت اہم بحری تجارتی راستہ ہے جو دنیا کی معاشی شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ یورپ اور امریکہ کو مشرق وسطی، افریقہ اور مشرقی ایشیاءسے جوڑتا ہے۔ پاکستان بحرہند کے ساحلی ممالک میں سرفہرست ملک ہے جس کی مکران کے ساحل پر سمندر کے ساتھ سرحد ایک ہزار پچاس کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے جہاں بڑے خصوصی اقتصادی زون ہیں۔ پاکستان سمندری تجارت پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اکنامک زونز ہماری زمین کے تقریبا 40 فیصد پر ہیں اس لئے ان کو بروئے کار لانا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کی 80 فیصد تجارت سمندری راستے سے ہوتی ہے۔ خصوصی اقتصادی زون بننے سے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوگی۔سمندر میں حیاتیاتی اور غیرحیاتیاتی وسائل سے بے پناہ نئے معاشی مواقع کھلیں گے جس میں روزگار کے مواقع بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو اپنی بندرگاہوں کے ڈھانچے کو اس مقصد کے لئے بہتر بنانا ہوگا۔ریل اور شاہراہوں کو ترقی دینا ہوگی۔ ماہی گیری کے شعبے کو جدید طریقوں کے استعمال سے ترقی دینا ہوگی اور آبی راستوں، گزرگاہوں اور سمندروں کو آلودگی اور گندگی سے بچانے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے معیاری افرادی قوت بھی درکار ہوگی۔ موجودہ حکومت میری ٹائم کے شعبہ میں بے پناہ مواقع سے استفادہ کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ گوادر میں جدید ترین شپ یارڈ اس ضمن میں امکانات کی نئی راہیں کھول رہا ہے۔ ساحل کی صنعت سے استفادہ میں یہ بندرگاہ نہایت کلیدی کردارادا کرے گی۔ ایک اور حوصلہ افزا پیش رفت ہائر ایجوکیشن کمشن کی جانب سے گوادر میں یونیورسٹی کا قیام ہے۔ اس جامعہ کا بنیادی مقصد معیاری افرادی قوت کی تیاری اور تربیت ہے۔ جدید تحقیق، تخلیقی انداز اور نئے علوم وفنون کی بنیاد پر ترقی پر توجہ دی جائے گی۔ یہ افرادی قوت سی پیک کے تحت منصوبہ جات میں اہم کردار اداکرسکے گی۔ پاکستان کی میری ٹائم پالیسی اور حکمت عملی آگہی اور علم کی بنیاد پر استوار ہونی چاہئے۔ ساحل سے جُڑی کئی جہات ایسی ہیں جن پر توجہ دے کر ملک کی معیشت کے لئے معجزے برپا ہوسکتے ہیں۔ ماہی گیری کی صنعت، آف شو وسائل کی ترقی اور سیروتفریح اس میں نہایت اہم اجزاءہیں۔ پاک بحریہ نے سمندر راستوں اور ملکی بحری سرحدوں کا بے مثال انداز میں دفاع کرکے اس حقیقت کو ایک بارپھر منوایا ہے کہ وہ پیشہ وارانہ صلاحیت اور جذبے سے لیس ہے۔ اس کی اسی ساکھ کی بناءپر پاکستان کی سمندری معیشت میں بہتری کے کئی امکانات ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اورپاک بحریہ کی اس صلاحیت کی بنیاد پر وساحل نہ رکھنے والی سط ایشیائی ریاستیں اور ساحل رکھنے والے دیگر ممالک میں ہم معاشی رابطے کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔جنوری سے تیل کی تلاش کے لیے کیکڑا-1 علاقے میں انتہائی گہری کھدائی کررہی ہے۔خیال رہے کہ ایگزون موبل تقریباً ایک دہائی بعد گزشتہ برس ہونے والے اُس سروے کے بعد پاکستان میں واپس آئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی سمندر میں تیل کا بہت بڑا ذخیرہ ہوسکتا ہے۔اس لیے وزیراعظم عمران خان کو یقین ہے کہ اگر تیل کے ذخائر دریافت ہوگئے تو پاکستان کے زیادہ تر اقتصادی مسائل حل ہوجائیں گے اور پھر ملک کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔
گہر ے سمندر میں ڈرلنگ میں مصروف عمل ملکی و غیر ملکی آئلز کمپنیوں کے ساتتھ موثر کوارڈینشن او قریبی رابطے فوری طور پر قائم کیے جایئں: وزیر اعظم عمران خان
Mar 25, 2019 | 18:40