کرونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے۔ علماء کرام کا کہنا ہے کہ اسلامی اعتقاد کے مطابق ہر وبا اللہ کی طرف سے آتی ہے اور پھر اسی کے حکم سے ختم ہو گی۔ اس کا علاج یا اس سے بچاؤ کیلئے مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شریعت کیخلاف نہیں ہے بلکہ عین تقاضائے شریعت ہے۔ قارئین! آپ کو حضرت عمر فاروقؓ کے دور کا واقعہ بیان کرتا ہوں۔ یہ 17 ہجری کے اواخر کی بات ہے کہ فلسطین کے شہر عمواس میں طاعون پھوٹا اوردیکھتے ہی دیکھتے شام سے عراق تک سارے علاقے میں سیلاب کی طرح پھیل گیا۔ یہ وہ علاقے تھے جن میں اس وقت مملکتِ اسلامیہ کی فوجیں یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوتی تھیں۔ یہ سب اس وبا کی لپیٹ میں آ گئیں۔ یہ وبا مہینوں تک پھیلی رہی اور ایک اندازے کے مطابق قریب پچیس ہزار مسلمان اس کی نذر ہو گئے۔ ان میں بڑے بڑے صحابہؓ بھی شامل تھے۔ حضرت عمرؓ شام کا نظم و نسق دیکھنے کی غرض سے اس سے پہلے مدینہ سے روانہ ہو چکے تھے۔ جب آپ تبوک کے قریب پہنچے تو طاعون کی تباہ کاریوں کی خبر ملی۔ وہاں صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ آگے جانا چاہیے یا نہ۔ طے یہ پایا کہ آپکو اپنے ساتھیوں سمیت واپس تشریف لے جانا چاہیے۔ یہی وہ فیصلہ تھا جس کے خلاف حضرت ابو عبیدہؓ نے کہا تھا کہ ’’کیا آپ تقدیر الہی سے بھاگ رہے ہیں‘‘ آپؓ نے جواب دیا کہ ’’ہاں! میں خدا کی ایک تقدیر سے اس کی دوسری تقدیر کی طرف جا رہا ہوں‘‘ یہی وہ ’’مرگِ مفاجات‘‘ تھی جس کے بچانے کیلئے آپؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ کو لکھا تھا کہ آپ ایک ضروری مشورہ کیلئے مدینہ آئیے۔ انھوں نے جواب میں عرض کیا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ مجھے اس بلا سے محفوظ رہنے کیلئے بلا رہے ہیں لیکن میں اپنے لشکر کا سپہ سالار ہوں۔ اپنے سپاہیوں کو خطرہ میں چھوڑ کر، اپنی جان بچانے کیلئے یہاں سے نکل جانا مناسب نہیں سمجھتا۔ اس لیے آپ مجھے تعمیلِ ارشاد سے معذور رکھیے۔ آپ وہاں سے نہ نکلے اور اپنے رفقاء کی معیت میں وہیں جان، جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ فاروق اعظمؓ اس سیلابِ وبا کو تو نہ روک سکے لیکن اسکی تباہیوں کی تلافی کیلئے بہت کوشش کی۔ وبا ختم ہو گئی تو حضرت عمرؓ ان تباہیوں کا جائزہ لینے اور انکے ازالہ کیلئے مناسب انتظام کرنے کی غرض سے خود شام کی طرف تشریف لے گئے۔ اِدھر شام و عراق میں یہ طوفانِ بلا امنڈا ہوا تھا۔ اُدھر پورے کے پورے عرب کو قحط نے گھیر لیا۔ خشک سالی ایسی کہ اس نے زندگی کی ہر نمود کو راکھ بنا کر رکھ دیا۔ چنانچہ بعد میں اسے ’’سالِ خاکستر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ جیسا کہ اس قسم کے حالات میں ہوتا ہے۔ اردگرد کی ساری صحرائی آبادیاں، ہجوم کر کے مدینہ آ گئیں۔ مدینہ اگرچہ مملکت کا مرکزی مقام بھی تھا لیکن وہاں اتنا غلہ ریزرو میں تو نہیں رکھا گیا تھا کہ وہ اس قدر کثیر آبادی کیلئے کافی ہو جائے۔ لیکن حضرت عمرؓ نہ تو اس قدر پریشان ہوئے کہ آپکے اوسان خطا ہو جائے اور نہ یہ کہہ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے کہ یہ ’’خدا کی طرف سے آئی ہوئی بلا ہے۔ بندے اس کا علاج کیا کر سکتے ہیں‘‘ انھوں نے ایک تقدیر الہی سے دوسری تقدیر الہی کی طرف رخ موڑا اور دل جمعی سے اس مصیبت کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو گئے۔ آپؓ نے سب سے پہلے شام، فلسطین، عراق کے گورنروں کے نام پیغام بھیجا کہ ’’کیا تم اسے گوارا کرو گے کہ ہم ہلاک ہو جائیں اور تم زندہ رہو‘‘ حضرت عمر و بن عاصؓ نے جواب میں کہا کہ اطمینان رکھیے۔ میں غلہ کا ایسا قافلہ بھیج رہا ہوں جس کا اگلا سرا آپکے پاس ہو گا اور پچھلا سرا میرے پاس۔ حضرت ابو عبیدہؓ ابن الجراح چار ہزار اونٹوں کا قافلہ لے کر عازمِ مدینہ ہو گئے۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ نے شام سے تین ہزار اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک ہزار اونٹوں کے قافلے روانہ کیے۔ حضرت عمرؓ نے رسد کی آمد تک مقامی انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ سب سے پہلے انھوں نے یہ کیا کہ مدینے میں جس قدر کھاتے پیتے گھرانے تھے، انکے افراد خاندان کی تعداد کے برابر باہر سے آنیوالے افراد ان کے ساتھ ملا دئیے اور کہہ دیا کہ جتنا کھانا روز بچتا تھا، وہ کھانا اس دگنی تعداد میں تقسیم کر لیا جائے۔ ان کا ارشاد تھا کہ نصف خوراک سے انسان مرتا نہیں لیکن جب آنیوالوں کاہجوم زیادہ ہو گیا تو آپ نے اس انتظام کو بدل دیا اور حکم دیا کہ مدینہ میں کسی کے گھر میں انفرادی طور پر کچھ نہیں پکے گا۔ غذا کا سامان یکجا کر لیا جائے۔ جو کچھ پکے، اہل مدینہ اور باہر سے آنے والے ایک مشترکہ دسترخوان پر بیٹھ کر کھا لیں۔ اس انتظام کی ابتدا انھوں نے خود اپنے ہاں سے کی۔ آپؓ بھی اسی مشترکہ دسترخوان پر بیٹھ کر ماحضر تناول فرما لیتے تھے۔ آپؓ نے قسم کھائی کہ جب تک قحط رہے گا وہ گوشت اور گھی کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے۔ صرف زیتون کے تیل کیساتھ سوکھی روٹی کھائیں گے اور قحط کا سارا زمانہ اسی سوکھی روٹی اور روغن زیتون پر گزار دیا۔