داستان ایک عہد کی پاکستان ، نوائے وقت

Mar 25, 2020

شاہد رشید

ارض پاکستان پر جنرل ایوب خان کی طرف سے مسلط کئے گئے پہلے مارشل لاء میں جمہوریت اور شہری آزادیوں کی بحالی کے لیے صحافتی محاذ پر سرگرم عمل ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ یہ بڑے دل گردے کے لوگوں کا کام ہوا کرتا ہے۔ جن لوگوں نے اس بھاری پتھر کو اٹھانے کی کوشش کیاوہ اٹھا نہ سکے اور چوم کر چھوڑ گئے۔ صرف جناب مجید نظامی تھے جن کا قلم آمریت کی پالیسیوں اور آمرانہ اقدامات کے مقابلے میں شمشیر خارا شگاف بنا رہا۔ خداوند کریم نے اس نرم خو انسان کے سینے میں فولاد کا دل رکھا ہوا تھا۔ فوجی ڈکٹیٹر نے انہیں ڈرانے دھمکانے اور جھکانے کی لاکھ کوششیں کیں مگر مجید نظامی نام کا شاہین‘ زیر دام نہ آ سکا۔ جناب مجید نظامی کی ایسی جرأت مندانہ صحافت نے روزنامہ نوائے وقت کو قائدؒ اور اقبالؒ کے سیاسی و جمہوری تصورات کا علمبردار اور عوامی امنگوں کا ترجمان بنا دیا۔ اس کی بناء پر جناب مجید نظامی فوجی حکمران اور اس کے اعضاء و جوارح کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹکتے تھے۔
پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ میں اس ہنگامہ خیز دور کو شاید کبھی فراموش اور نظر انداز نہیں کیا جائے گا جب نشۂ اقتدار میں بدمست ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان نے مملکتِ پاکستان کے صدارتی انتخابات میں امیدوار بننے کا اعلان کیا۔ اس کے مقابلے میں بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار بننے پر رضا مند ہو گئیں۔ جناب مجید نظامی نے ہرقسم کے سود وزیاں کو پس پشت ڈال کر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کا بھرپور ساتھ دیا۔ جناب مجید نظامی نے نوائے وقت میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی حمایت کر کے انتہائی پامردی کے ساتھ جمہوری قوتوں کی جدوجہد کو تقویت دی اور عام آدمی تک مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے خیالات کو تفصیل سے پہنچا کر لوگوں میں آمریت کے خلاف لب کشائی کرنے کی ہمت پیدا کی۔ پورے ملک میں صرف ایک جناب مجید نظامی ہی تھے جنہوں نے پاکستان سے جمہوریت کی صف لپیٹنے والے آمر جنرل ایوب خان کے مقابلے میں جمہوریت کی بحالی‘ پارلیمانی نظام کے احیاء اور شہری آزادیوں کی بازیابی کے لیے مادرِ ملت کی خاطر اپنے آپ اور نوائے وقت کو وقف کر دیا۔ صدارتی انتخابات کے موقع پر ملک میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات بھی تھے جو حکومتی سرپرستی میں شائع ہوتے تھے اور وہ سبھی آمریت کے گن گانے میں مصروف رہتے تھے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ جہاں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی طرف سے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان نے حکمرانوں کی نیندیں اڑا دیں وہاں جناب مجید نظامی کی زیرِصدارت نوائے وقت نے مادرِملت کی حمایت کرنے پر آمر حکمران کے دن کے چین کو لوٹ لیا تھا۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر جناب مجید نظامی آمر حکمران کے مقابلے میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کا ساتھ نہ دیتے تو پاکستان کی مستقبل کی تاریخ پر وہ دور رس اثرات مرتب نہ ہوتے جن کی تدوین میں جناب مجید نظامی کا کردار انتہائی اہم اور منفرد تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر جناب مجید نظامی کی زیرِ ادارت نواے وقت پوری شدومد کے ساتھ مادرِملت کی حمایت میں سرگرم عمل نہ ہوتا تو دیگر اخبارات بھی نوائے وقت کی دیکھا دیکھی مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے بیانات اور تصاویر کو چاہے یہ بادلِ نخواستہ ہی سہی‘ چھاپنے پر مجبور نہ ہوتے اور پھر ایسے ماحول میں شایدپاکستان میں وہ فیصلہ بھی نہ ہو پاتا کہ کیا عورت سربراہ مملکت یا چیف ایگزیکٹو بن سکتی ہے۔ جناب مجید نظامی کے نوائے وقت نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے حق میں ایسی فضا تیار کر دی تھی کہ حکمرانوں کو جب اپنا اقتدار ڈولتا ہوا محسوس ہوا تو انہوں نے عورت کی حکمرانی کے بارے میں بحث کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی۔ جناب مجید نظامی کی ہدایت پر نوائے وقت میں صفحۂ اول پر پیشانی کے ساتھ ایک ذیلی کالم میں امیرجماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ایک بیان شائع ہوا جس کی شہ سرخی تھی ’’عورت سربراہ مملکت ہو سکتی ہے‘‘۔ جناب مجید نظامی کی خصوصی توجہ سے نوائے وقت میں اس تفصیلی بیان نے جہاں وقت کے آمروں کی طرف سے لوگوں کو مذہب کے نام پر گمراہ کرنے کی سازشیں ناکام ہوئیں وہاں ملک میں آئندہ کے لیے عورت کے سربراہ مملکت اور چیف ایگزیکٹو بننے کا راستہ قطعی طور پر صاف ہو گیا۔ اگر جناب مجید نظامی نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی حمایت میں حق و صداقت کا ساتھ نہ دیا ہوتا توشاید اس قسم کا بیان اخبارات کے ذریعے عوام تک نہ پہنچ پاتا ۔
ان دنوں نوائے وقت نے محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے پہلے ان کے مقام و مرتبہ کے تقاضوں کی روشنی میں ’’مادرِ ملت‘‘ لکھنا شروع کیا۔ یہ خطاب بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ کو نوائے وقت ہی کی طرف سے دیا گیا اور انتخابات کے حوالے سے چلنے والی مہم کے دوران حکومت نے اخبارات کو باقاعدہ پریس ایڈوائس جاری کی کہ محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے قبل ’’مادرِ ملت‘‘ نہ لکھا جائے مگر جناب مجید نظامی نے ایسی کسی ایڈوائس کو اہمیت نہ دی۔ نوائے وقت نے اپنے اداریوں‘ خبروں‘ کالموں میں مادرِ ملت کے انتخابی نشان لالٹین کے حوالے سے مضامین لکھ کر ملک میں آمریت کے خلاف نفرت کی فضا کو پروان چڑھایا۔ اس صورت حال نے اقتدار کے ایوانوں کو لرزہ براندام کئے رکھا۔
جناب مجید نظامی نے جنرل ایوب خان کے علاوہ وقت کے دوسرے آمروں کو بھگتایا اور ہر آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق و صداقت کی بات کی۔ وہ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ اور بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ سے والہانہ لگائو اور ان کے سیاسی و جمہوری نظریات پر مبنی نظام قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ اس مقصد کے حصول کی راہ میں وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کو بھی تیار رہتے تھے۔ ان کی چمڑی میں سوائے خدا کے خوف کے اور کسی کا ڈر نہیں تھا ۔ جناب مجید نظامی زرد صحافت کے قطعی طور پر خلاف تھے‘ کسی کو بلیک میل کرنے یا کسی کی پگڑی اچھالنے کو ناپسند کرتے تھے۔ محب وطن اور جمہوریت پسند پاکستانی کی حیثیت سے جرأت مندانہ اندازِ صحافت پر جناب مجید نظامی کو اندرون اور بیرون ملک صحافتی دنیا میں ممتاز مقام عطا ہوا اور ان کی پریس کی آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا اعتراف بھی کیا گیا۔ اس بارے میں بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے شروع میں برطانیہ کے معروف مصنف ’’ہربرٹ فیلڈ من‘‘ کی کتاب فرام کرائسس ٹو کرائسس (From Crisis to Crisis)نے بڑی شہرت پائی۔ (جاری)

مزیدخبریں