’’کرونا ‘‘ ایک ایسی آسمانی آفت ثابت ہوئی ہے جس نے زمین پر بسنے والے خدائوں اور ناخدائوں کو پریشان اور زچ کر کے رکھ دِیا ہے اس بلا کے علاج اور اسباب معلوم نہ ہو سکے ہیں۔ ڈاکٹر، حکیم، پیر، فقیر، ملنگ، سائیں، عامل، حضرت، قبلہ اور دم درود کرنے والے سب بے بس ہوکر خود چھپتے پھر رہے ہیں۔ اس وائرس نے پوری دنیا کی ٹیکنالوجی کو مات دے دی ہے۔ اس نے سپر طاقتوں کا وہی حشر کیا ہے جو کبھی مچھر نے نمرود کا کیا تھا۔ دنیا بھر میں ائیر پورٹ بند، ہوٹل ، دکانیں ویران محفلوں کی رونقیں ختم، حکومتی ادارے سکول، کالج، یونیورسٹیاں بند، ترقی کا پہیہ جام کاروبارِزندگی معطل، سائنس اور سپر طاقتوں کی دانش اور حکمت عملیاں ناکام، میڈیکل سائنس چاروں شانے چت، دوائیاں، جادو ٹونے بے اثر ، انجکشن بیکار ہر طرف خوف کا راج، کوئی کسی کی مدد کو تیا ر نہیں،ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔مدارس بند، مساجد جانے میں جھجک، حرم شریف کا طواف بند، اللہ کے سب گھر اس ’کرونا‘ کی وجہ سے بند۔ اگر کوئی دروازہ کھلا ہے تو وہ ’توبہ‘ کا دروازہ ہے مگر اس طرف کوئی رُخ نہیں کر رہا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ انسان کو نہ مذہب پر اعتقاد رہا اور نہ ہی سائنس سے عقیدت۔
سنا کرتے تھے کہ جب کسی فرد ،گروہ ،معاشرے یا قوم پر تمام لاگو کی گئی قدغنیں اور پابندیاں یعنی مذہبی، قانونی، اخلاقی اور روایتی بے اثر ہو جائیں تو قدرت کا اپنا پراسس شروع ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اجتماعی سکون سلب کر لیا جاتا ہے۔ نا قابلِ علاج بیماریاں اور اچانک اموات مسلط کردی جاتی ہیں ،سجدوں کی توفیق کمزور کردی جاتی ہے، ڈر اور خوف مسلط کر دیا جاتا ہے۔ ماضی میں بہت سی قوموں کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے کہ جب اللہ کے حکم سے روگردانی ہوئی تو اللہ کا عذاب اُن کا مقدر بنا۔ مثلاً قومِ شعیب، ناپ تول میں کمی اور ہیرا پھیری، قومِ لوط بد فعلی، قومِ عاد ، طاقت کے نشے اور تکبرکی وجہ سے عذاب کی مستحق ٹھہریں۔ قومِ سبا کی زراعت اور قومِ ثمود کی عالیشان عمارتیں نیست ونابود کر دی گئیں۔ ان قوموں میں ایک برائی حد سے تجاوز کرتی تھی تو عذاب آتا تھا۔ بد قسمتی سے ماضی کی ان اقوام کی تمام برائیاں ہم میں بدرجہ اتم موجود ہیں مگر خوش قسمتی سے ہم اُن جیسے عذاب سے محفوظ ہیں۔ماضی کی اُن قوموں کی برائیوں سے اگر ہم اپنا موازنہ کریں تو عقل ٹھکانے آ جاتی ہے۔ کوئی مذہبی، اخلاقی اور قانونی جرم ایسا نہیںجو ہم سے سرزد نہ ہو رہا۔ ایمان میں منافقت، شراب نوشی اور فروشی، مجرے، ننگے ناچ، فحش فلمیں،بازاروں میں بد نگاہی، ناپ تول میں کمی، محبت میں دھوکہ رشتے میں خود غرضی، رشتہ داروں سے قطع تعلقی،بہن بھائیوں میں نفرت، پڑوسیوں سے بد سلوکی، استاد سے بد تمیزی، اپنے سماجی منصب امارت، علم، دولت، طاقت کا تکبر اور غرور، جھوٹ، فراڈ، عبادت میں ریاکاری، دودھ میں پانی، شہدمیں شیرہ، گھی میں کیمیکل، ہلدی میں مصنوعی رنگ کی ملاوٹ، سرخ مرچوں میں اینٹوں کا رنگ، جوس میں جعلی رنگ، آٹے میں ریت، پھلوں میں میٹھے انجکشن، سبزیوں پر رنگ، پٹرول میں گندہ تیل، شوارمے میں مردہ جانور، منرل واٹر میں نلکے کا پانی، جعلی صابن، جعلی سرف، جعلی شیمپو، اور جعلی آئیٹم اوریجنل ٹیگ کے ساتھ، ہسپتالوں میں جعلی ڈاکٹر، فرقہ بازی، فتویٰ بازی نے عام مسلمانوں کو اُلجھا کر رکھ دِیا ہے اور وہ سوچ رہا ہے ۔
ساڈے چار چفیرے قبلے کیہڑے پاسے منہ کریے
یہ سب ہمارے لئے معمول کی چیزیں ہیں جن کو ہم گناہ نہیں سمجھتے بلکہ اپنی چالاکی سمجھتے ہیں ہم دوسروں کی دنیا جہنم بنا کر خود سجدوں میں جنت تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ انصاف نام کی کوئی چیز ہمارے ہاں بالکل ناپید ہے۔ گھر، گلی، محلے اور ادارے انصاف نام سے ناواقف ہیں۔ جس سے معاشرے کا حسن گہنا گیا ہے چونکہ معاشرے کا حسن عدل ہے عدل نہیں تو امن نہیں۔ زنا کے اڈے، شراب خانے، جوا خانے اور دو نمبر ادوّیات کی فیکٹریاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ میڈ ان (made in) پاکستانی چیزوں پر غیر ملکی مہریں لگا کر دھڑلے سے فروخت نمایاں ہے۔ رشوت اور حرام خوری بطور حق کی جارہی ہے۔ میڈیا، اساتذہ، علماء اور والدین کی طرف نسلِ نو کی مثبت تربیت اور مفید ذہن سازی شجر ممنوعہ ہے۔ ہمارے ہا ں عقیدوں کی بھرمار مگر یقین نا پید ہے۔ ’میرا جسم میر ی مرضی‘ کمپنی اور ہم نوائوں کی پذیرائی جاری ہے۔ ایسی قوم کے نوجوان کسی بلند مقصد کے حصول کے لیے قوتِ ایمانی کہاں سے لائیں گے؟ ہم مذہبی اور سماجی ڈسپلن سے محروم گروہ بن چکے ہیں۔ اپنے سفر کی سمت غیر واضح ہے۔ ہمیں حکمرانوں سے ہمیشہ گلہ رہتا ہے کہ وہ دیانتدار اور اہل نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے شکوہ ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہر دوسرے شخص سے گلہ ہے کہ وہ ہماری عزت نہیں کرتا جبکہ ہم خود دوسروں کو بے عزت کرنے کو کارِ ثواب اور اپنا حق سمجھتے ہیں اس صورتحال کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ ہم ایک صاف شفاف اور پاکیزہ معاشرے کے لوگ ہیں۔
پہلی قوموں پر عذاب آتا تھاتو ان کی وعید سن کر خوب مذاق اڑایا کرتے تھے ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ’کرونا ‘ پر طرح طرح کے لطیفے اسی مزاج کی نشاندہی کرتے ہیں۔ سرجیکل ماسک روٹین میں پانچ روپے کی چیز ہے اچانک وائرس آنے سے مارکیٹ میں کمی کر کے سو روپے تک فروخت کئے گئے ہیں یہی حال سینی ٹائزر کا ہو رہا ہے۔ روزمرہ کی چیزیں سٹاک کر کے منافع خوری کی جارہی ہے بد حواسی میں دھڑا دھڑ اشیاء ضروریات بلاوجہ خرید کر گھروں میںجمع ہو رہی ہیں کہ خدانخواستہ چیزیں مارکیٹ میں ناپید ہو جائیں گی۔ کھانے پینے کی اشیاء بلاجواز مہنگی کر دی گئی ہیں۔ یہ ساری بدحواسی اور رویے دیکھ کر ایک اطالوی کہاوت یاد آئی ہے کہ ’’جب دیوتا کسی قوم کر برباد کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسے بد حواس کر تا ہے۔‘‘ عالمی برداری کی طرح ہم بھی بحیثیت قوم ایک خوف، پریشانی اور خطرے کی کیفیت سے نبرد آزما ہیں ہمیں ایمان، اپنائیت، احساس اور اجتماعی نظم و نسق کی بہت زیادہ ضرورت ہے اب جبکہ طے ہو چکا ہے کہ اس وبا کا کوئی علاج نہیں ہے صرف !!
یہ عجیب مرض ہے کہ جس کی دوا ہے تنہائی
تو کیوں نہ اِس تنہائی کو یقینی بنا کر بابرکت اور بامقصد کر دِیا جائے۔ اللہ کی طرف رجوع کر کے توبہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے کیونکہ اب صرف یہی دروازہ کھلا ہے باقی سارے در بند ہیں۔ حقوق اللہ میں معافی شرط ہے اور حقوق العباد میں تلافی شرط ہے دونوں کی طرف رجوع کرکے خالق اور مخلوق کو راضی کیا جائے۔ ہمیں کسی کو بتانا نہ پڑے کہ ہم مسلمان ہیں ہمارا کردار ہی ہمارے مسلمان ہونے کی گواہی دِے۔ وباء سے بچنے کی احتیاطیں ہم نے خود اختیار کرنی ہیں۔ اسی میں ہمارا ذاتی اور اجتماعی مفاد وابستہ ہے ۔ بد قسمتی سے یہ وبا ہمارے دور میں آئی ہے تو اِس کو ہم نے ہی ایک جان، ایک ٹیم اور ایک وجود بن کر اس کو شکست دینی ہے جیسے چین نے کیا ہے۔
وبا کے خاتمے پر دُنیا تعین کرے گی کہ کس قوم نے کس کردار، جذبے اور عزم کے ساتھ اِس کا مقابلہ کیا۔ اِس درجہ بندی میں باوقار مقام پانے کے لیے ہمیں حکومت کی طرف سے دی گئی SOP پر خوش دلی سے عمل کرنا ہوگا۔ اِس لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہی کوئی الیکٹریشن بن کر دوبارہ کرنٹ بحال کر دے ان لوگوں کے مابین جن کے رابطے منقطع ہیں اور ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ کوئی Optician بن کر جو ہماری آئو ٹ لک تبدیل کر کے اُس کا زاویہ منفی سے مثبت کر دے۔ کوئی آرٹسٹ بن کر ہمارے چہروںپر مسکراہٹیں بکھیر دے۔ کوئی کنٹریکٹر بن کر ایسا پل تعمیر کر دے جو مختلف مسالک، سیاسی پارٹیوں اور مختلف نظریات کے لوگوں کے درمیان دوریاں کم کر دے۔ ہمسائیوں اور مخالفوںکو اس پل کے ذریعے ملنے میں آسانی پیدا کر دے۔ کوئی مالی بن کر ہمارے اندر مثبت، سرسبز، ترو تازہ اور خوشبودار سوچ کے بیج بو کر آبیاری کر دِے۔ کوئی ریاضی دان بن کر ہمیں وہ سارے کلیے ازبر کر وا دے کہ رشتوں اور تعلقات میں سے بغض،حسد اور کینہ کیسے منہا کرناہے محبتوں، اخلاص اور باہمی احترام کو ایزاد کیسے کرنا ہے، پریشانیوں، مشکلوں اور مصیبتوں کو تقسیم ، خوشیوں اور باہمی عزت اور پیار کو ضرب کیسے دینی ہے۔