پی ڈی ایم تتر بتر

چند افراد کے گھرانے میں ہر فرد کی سوچ ، فکر ، عمل اور مفادات میں ٹکرائو ہوتا ہے۔ یہ فطری تقاضا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کی ٹوکری میں پھلوں کا رنگ ذائقہ اور تاثیر ایک جیسی ہو اور اب تو ہر پھل کا رنگ سامنے آ گیا ۔ پی ڈی ایم کا لانگ مارچ لفظی مارچ ثابت ہوا ۔ مولانا پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے اور سب اتحادی ان کا منہ تکتے رہ گئے۔ اکٹھے ڈنر کی ٹیبل پر بیٹھنا پریس سے مخاطب ہونا دلوں کے ملاپ کی نشانی نہیں ہوتی۔ مریم نواز اور مولانا کی فلائٹ ایف سولہ طیارے کی رفتار سے چل رہی تھی کہ عمران خان وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر دکھائی نہ دے جبکہ زرداری منجھے ہوئے کھلاڑی اور سیاسی شطرنج کے بادشاہ ہیں۔ زیرِ لب مسکراتے بھی ہیں لیکن سیاسی مخالفوں کو دوست نہیں جانتے اپنے ناپسندیدہ مہروں کو کیسے دور رکھتے ہیں۔ رضا ربانی سے بڑی مثال اور کیا ہو گی۔ اس سے زیادہ کُھل کر کیا کہتے کہ میاں صاحب ! لڑنا ہے تو جیل جانا ہو گا اس لیے کہ زرداری صاحب نے ایک عرصہ جیل ہی کو اپنا مسکن جانا، قیدیوں کی تواضع کرتے اور اپنا ہم نوا بنائے رکھا۔ جیل سے نہ گھبرانے پروہ مردِ حُر کہلائے وہ دورِ حاضر میں سیاسی کالج کے پرنسپل ہیں سیاسی قلابازیاں ان کے کالج میں داخلے کے بغیر سیکھی نہیں جا سکتیں اس وقت تو زرداری واقعی سب پر بھاری ہیں۔ لانگ مارچ کا التوا دراصل پی ڈی ایم کی قربانی ہے۔ اب تو عمران مخالف قوتوں کو یقین کر لینا چاہئے کہ عمران حکومت 17 اگست 2023 ء تک پانچ سالہ آئینی مدت پوری کریگی۔ تبدیلی آئے یا نہ آئے عوام کو عمران ایکسپریس میں ہی سفر کرنا ہو گا۔ پاکستان کی تاریخ میں جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے کرنیوالی یہ تیسری حکومت ہو گی ۔ زرداری نے پانچ سال حکمرانی کی پھر ن لیگ نے پانچ پورے کئے اور اب عمران کیوں نہ کریں۔ 2023ء میں عوام کے سامنے تینوں سیاسی ڈشوں کا ذائقہ سامنے ہو گا پھر دیکھیں گے وہ کس ڈش کو دوبارہ منہ لگانا پسند کرتے ہیں اور پھر باری لینے کا الزام بھی دور ہو جائیگا۔ پ ، ن اور ع سبھی نے وزارتِ عظمیٰ کا آسمانی جھولا جھول لیا ، بہتر ہو گا۔ اپوزیشن سیاسی رمضان المبارک سمجھ کر دو سال کا اعتکاف کر لے اور 2023 ء میں افطاری کا انتظار کرے۔ سیاسی حقیقت سے آنکھ چرانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ہر سیاسی پلے گرائونڈ میں ایمپائر موجود ہوتا ہے۔ ایمپائر پر کوئی ورلڈ کپ جیتنے والاکھلاڑی بھی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ گالی گلوچ ، چور ڈاکو ، راجکماری جیسے الفاظ لغت سے نکال دینے ہی بہتر ہیں ورنہ آئندہ قاعدوں میں چ سے چمچہ چاچا کی بجائے چور چھپنا شروع ہو جائیگا ۔ طرفین سیاست پر نظر ثانی کریں انصاف وہ جو دکھائی دے اسی طرح اصلاحات وہ جو نظر آئیں۔ معیشت واقعی زوال پذیر ہے۔ کورونا نے کاروبار پر گھٹا ٹوپ اندھیرا کر رکھا ہے۔ کورونا سے ٹیکسوں سے آمدن کا ہدف تو نہیں بدلا مہنگائی کے سونامی میں ہم افغانستان سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ بھارت سری لنکا اور بنگلہ دیش میں مہنگائی کے ہاتھوں دم نہیں گھٹ رہا ، سیاست میں توہین آمیز رویے کب تک چل سکتے ہیں۔ ساس بہو کی لڑائی علیحدگی پر منتج ہوتی ہے۔ سیاسی قاعدے میں ت سے تحمل ، ب سے برداشت اور بردباری درج ہونا ضروری ہے ش سے شرافت اور شائستگی ، موجودہ قاعدے میں ب سے بہتان بازی اور د سے دشنام طرازی اور ہ سے ہاتھا پائی درج ہے۔ کسی بھی جماعت نے اپنے کارکنوں کی نظریاتی اور اخلاقی تربیت کیلئے کسی لیکچر یا ورکشاپ کا اہتمام نہیں کیا۔ گھروں میں بچوں کی تربیت ہر کسی کا دھیان نہیں بالکل اسی طرح سیاسی جماعتیں صرف جوان افرادی قوت کو استعمال میں لاتی ہیں۔ ماضی میں یونین کے نام پر جامعات اور کالجوں میں سیاسی شہ زوروں نے قبضہ کئے رکھا۔ رمضان کی آمد ہے تاجروں نے اپنی چھریاں تیز کر دی ہیں۔ ذخیرہ اندوزی مصنوعی قلت کا سستے رمضان بازار کہاں تک مقابلہ کرینگے۔ غریب روزہ دار کیلئے تو ایک کیلا خریدنا بھی مشکل ہوتا ہے حکومت کا اربوں روپوں کا مضان پیکج بے کار ہو کر رہ جاتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کو چلتا رکھنے کیلئے دسمبر تک دو مرتبہ بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کیا جائیگا۔ یہ اضافہ ماہانہ بنیادوں پر کئے جانے والے فیول ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ ہے اور اس سے 220 ارب روپے حاصل کئے جائینگے۔ پہلا اضافہ یکم جولائی اور دوسرا یکم دسمبر سے لاگو ہوگا۔ مجموعی طورپر بجلی کے ٹیرف میں 3 روپے فی یونٹ اضافے کی تجویز ہے۔ پاور سیکٹر کے لاسز 17 فیصد سے کم کرکے 15.5 فیصد پر لائے جائینگے۔ اسی طرح بجلی کے بلوں کی ریکوری 90 فیصد سے بڑھا کر 96 فیصد پر لائی جائیگی۔ اسکے نتیجے میں صارفین پر تقریباً ساڑھے چار سو ارب روپے کا بوجھ پڑیگا۔ ایسا نہ کیا گیا تو گردشی قرضے کا حجم 2.3 ٹریلین سے بڑھ کر 3 ٹریلین تک پہنچ جائیگا۔ ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے ’’مہنگائی روکیں‘ مہنگائی روکیں‘‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تسلسل سے اضافہ کیا جا رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھروں کے گیس بل سینکڑوں نہیں‘ ہزاروں روپوں میں آئے ہیں۔ چینی 110 روپے کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ شہروں کی عمومی حالت کسمپرسی کا شکار ہے۔ ہر گلی کوچے میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر‘ تجاوزات کی بھرمار‘ بے ہنگم ٹریفک‘ سڑکوں پر سیوریج کی بہتی غلاظت اور بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا۔ پاکستان کی شہری آبادی میں سالانہ 3 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح 2025ء تک کل ملکی آبادی 24 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ جائیگی۔ یوں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک بن جائیگا۔

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن