تحریک پاکستان کے کارکنوں میں جہد مسلسل کا وصف بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہوکہ جس عظیم ہستی کی زیر نگرانی انہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا‘ اُس کی زندگی کا تو ایک ایک لمحہ جہد مسلسل سے عبارت تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی کرشماتی قیادت میں جدوجہد آزادی میں جن شخصیات نے حصہ لیا اب ایک ایک کر کے وہ تمام ملک عدم روانہ ہوتی جا رہی ہیں۔انہی عظیم شخصیات میں ایک نام پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کا بھی تھا جو 25 مارچ 2020ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمدکو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں پاکستان کی مادر جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز 27ویں سالانہ اجلاس میں بذات خود شریک تھے۔اُ س وقت آپ کی عمر محض 13سال تھی۔ اُسکے بعد آپ مسلم لیگ کے تمام اجلاسوں میں بطور خاص شریک ہوتے رہے اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا۔ آپ کو 1946ء میں اسلامیہ کالج‘ ریلوے روڈ‘ لاہور کے سالانہ جلسۂ تقسیم انعامات میں بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دستِ مبارک سے انعامات وصول کرنے کی سعادت ہوئی۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان ’’کام‘ کام‘ کام‘‘ کی عملی تفسیر تھے۔ زمانۂ طالب علمی سے لیکر آخری سانس تک انہوں نے خود کو تحریک پاکستان کے اعلیٰ و ارفع آدرشوںکی تکمیل کیلئے وقف کیے رکھا۔ وہ طبعی طور پر اُمید پرور شخص تھے اور حالات و واقعات کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ پاکستان کے روشن اور محفوظ مستقبل پر غیر متزلزل ایمان رکھتے تھے اور اس کی بنیادی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ پاکستان کی نئی نسل خداداد صلاحیتوں کی مالک ہے‘ اس میں آگے بڑھنے کا لازوال جذبہ موجود تھااور یہ پاکستان کو اوجِ ثریا تک لے جانے کی بھرپور اہلیت رکھتی ہے۔ اسی تناظر میں انہوں نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے نسل نو کی نظریاتی تعلیم و تربیت کو اپنا مقصد حیات بنایا ہوا تھا۔
پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کرنے کے بعد آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر کے عہدہ ہائے جلیلہ پر بھی فائز رہے۔ انہوں نے ملکی و بین الاقوامی درسگاہوں میں 35سال سے زائد عرصہ تک تدریسی فرائض سرانجام دیے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ سے وہ دل و جان سے پیار کرتے تھے اور ایسا کیوں نہ ہوتا‘ اس قومی نظریاتی ادارے کی انہوں نے اپنے خونِ جگر سے آبیاری کی تھی۔اپنے جگری دوست محترم مجید نظامی کے اصرار پر انہوں نے 1999ء میں اس ادارے کے سیکرٹری کے فرائض سنبھالے اور 2008ء میں وائس چیئرمین کا منصب سنبھالا۔ ان دونوں حیثیتوں میں انہوں نے اس ادارے کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اسے مالی طور پر مستحکم کرنے اور اسکی آزاد و خود مختار حیثیت کو مضبوط بنانے میں ان کی شب و روز کی جدوجہد کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ ایوان قائداعظمؒ کی منصوبہ بندی، اسکی تعمیر اور اسے فنکشنل کرنے کے حوالے سے بھی انہوں نے انتھک کام کیا۔
وہ نظریۂ پاکستان یا دو قومی نظریے کو ہر پاکستانی کے قلب و ذہن میں راسخ کرنے پر زور دیتے تھے اور بھارت کو پاکستان کا ازلی بدخواہ قرار دیتے ہوئے کہتے تھے کہ وہاں ہندوتوا کے نسل پرست نظریے کے جارحانہ احیاء کے تناظر میں۔ اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنی قوم بالخصوص نئی نسل کو پاکستان کی غایتِ وجود یعنی نظریۂ پاکستان سے بطور خاص روشناس کرائیں۔ وہ انتہائی وسیع المطالعہ شخصیت تھے۔ سوشل میڈیا کی یلغار کے اس دور میں بھی وہ کتابوں سے جڑے رہنے کے قائل تھے۔ معاشیات اور پاک بھارت تعلقات پر چھ کتب کے مصنف تھے جبکہ آخری کتاب ’’ستاروں سے آگے‘‘ اپنی زندگی کے آخری ایام میں مکمل کر لی تھی جو اس وقت طباعت کے مراحل طے کر رہی ہے۔ یہ کتاب ہماری سوچ کی سمت درست کرنے اور پاکستان کی عظمت کو اجاگر کرنے والے حیات بخش افکار پر مشتمل ہے۔
ان کا شمار ملک کے مایہ ناز ماہرینِ اقتصادیات اور اس شعبے کے نامور اساتذۂ کرام میں ہوتا تھا مگر ان کے اپنے نزدیک اصل سرمایۂ افتخار قائداعظمؒکا سپاہی ہونا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ سے انہیں متعدد بار ملاقات کا شرف حاصل رہا۔ بابائے قوم سے مصافحہ کرتے وقت انکے ہاتھوں کا لمس‘ نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی انکی آنکھوں کی چمک اور چہرے پر پائے جانے والا عزم و استقلال انہیں تاحیات یاد رہا اور جب کبھی بھی وہ ان یادگار لمحات کا تذکرہ کرتے تو یوں لگتا جیسے وہ ازسرنو بابائے قوم کے روبرو موجود ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بابائے قوم کی سحر انگیز شخصیت نے ساری زندگی انہیں اپنے سحر میں مبتلا کیے رکھا تو قطعاً مبالغہ نہ ہو گا۔ پاکستان کی معاشی صورتحال اور مستقبل کے امکانات پر ان کے تجزیے بڑے زوردار ہوا کرتے تھے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کو نہ صرف چین و پاکستان بلکہ وسطی ایشیا کے ممالک کیلئے بھی ایک اہم ترقیاتی منصوبہ قرار دیتے تھے۔
ایسی شخصیات تو اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں جنہوں نے تخلیق پاکستان میں بھی سرگرم کردار ادا کیا ہو اور قائداعظمؒ کے نظریات و تصورات کے عین مطابق اس مملکت کی تعمیر و ترقی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہو۔ وہ تحریک پاکستان اور موجودہ پاکستان کے درمیان ایک پُل کی مانند تھے۔ قحط الرجال اس قدر ہے کہ کسی بڑی شخصیت کا کوئی متبادل کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ انکے وصال سے پیدا ہونیوالا خلا کبھی پُر نہ ہو سکے گا۔ ان حالات میں سب سے عمدہ دعا یہی ہے کہ اﷲ رب العزت ہمیں اپنے ان قابل فخر بزرگوں کے نقوشِ پا کی پیروی کے قابل بنا دے‘ لاکھوں شہیدوں کے خون سے سیراب پاک وطن کی بنیادوں کو مزید مضبوط بنانے کی ہمت عطا فرما دے اور مشاہیر تحریک پاکستان کے وژن کے مطابق اس مملکت کو عالم اسلام کی قوت و شوکت کا مرکز بنانے کیلئے جہد مسلسل کی توفیق عطا فرما دے۔ آمین یا ربّ العالمین۔
٭…٭…٭