گرد ،گرما ،گدا ،گورستان کے حوالے سے پرانے زمانے میں ملتان کو پہچانا جاتا تھا پھر زمانہ بدلا اور لوگوں کو گردوغبار کی عادت ہوگئی. گداگروں سے کوئی علاقہ محفوظ نہ رہا ،گرمی کے توڑ کیلئے ائر کولر اور ائر کنڈیشنر سامنے آگئے رہے قبرستان تو وہ بھی جعلی ادویات اور اطائی ڈاکٹروں کی مہربانی سے جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئے۔ ملتان کو اولیا کی سرزمین کے طور پر بھی پکارا گیا مگر جو بات حافظ کے سوہن حلوے اور ملتانی آم کے جلوے سے بنی وہ ایک اور حقیقت ہے۔ ملتان کے ساتھ میری وابستگی کچھ اس طرح سے تھی کہ اسے اس شہر کو ہمارا ڈویژنل ہیڈکوارٹر بنایا گیا تھا تو تعلیمی بورڈ بھی یہی قرار پایا مگر جب فکر معاش اور صحافت کے شوق نے دربدر کیا تو اسکے بعد ملتان بھی ایک بھولی بسری یاد بن کر رہ گئی۔ ملتان آج اس لیے یاد آیا کہ گزشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر گردش کررہی ہیں جن میں کچھ درخت کاٹے جارہے ہیں یا ان کٹے ہوئے درختوں کو لوڈ کرکے لیجاتے ہوئے دکھایا جارہا ہے۔ ان تصاویر کے ساتھ سوشل میڈیا ،ہائوسنگ سوسائٹیوں اور بالخصوص دو سوسائٹیوں کے نام سے بھرا ہوا ہے۔ کچھ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ملتان اور اس کے گرد ونواح سے آم کے درخت کٹنے کا سلسلہ سات ، آٹھ سال سے جاری ہے اور اب تک پانچ لاکھ سے زائد درخت کاٹے جاچکے ہیں ۔
سچی بات ہے کہ عام بچوں کی طرح ہمیں بھی بچپن میں آم کی لت تھی اور آتے جاتے ،نظر بچا کر آم نکالنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کام تھا ،ایسے میں انور رٹول، دوسہری اورچونسہ کے ذائقے کون کافر بھول سکتا ہے اب جب آم کے درختوں کے جنازے یوں کھلے عام دیکھے تو بے اختیار دل بھر آیا، بہت سے لوگ سوال کرینگے کہ دل کیوں بھر آیا تو صاحبان دل تھام کے سنیئے کہ دنیا میں سب سے میٹھے ،خوشبودار ،رسیلے اورذائقے میں منفرد آم پاکستانی ہیں ،سندھ کے علاقے سے ہٹ کر جب ہم صرف پنجاب کی بات کریں تو یہ ایک مخصوص پٹی ہے جو کبیر والا سے شروع ہوکر شجاع آباد تک ہے۔ریاست بہاولپور والے آم کے معاملے میںبھی اپنے بابے کے قائل ہیں اور انہیں اس کا پورا حق ہے لیکن ملتان اور گردونواح کے آم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی خصوصیات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور جس طرح سے اعدادوشمار بتاتے ہیں لگتا ہے کہ اور آٹھ سے دس سال میں یہ ساری پٹی سیمنٹ اور سریے کے جنگل میں تبدیل ہوچکی ہوگی۔ رہائشی منصوبے بنانا وقت کی ضرورت ہے اوراس سے انکار بھی ممکن نہیں لیکن ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ترقی کے سفر کی آخر کیا اور کتنی قیمت ادا کرنی ہے ۔ ذرا غور کریں کہ یہ ذائقے جو آج ہم کو دستیاب ہیں یہ ہماری آنیوالی نسلوں کو دستیاب نہیں ہونگے،کون جانے کہ کسی دن ہمیں انڈونیشیا اور تھائی لینڈ سے آم بھی درآمد کرنے پڑیں ،بوسن روڈ سے عباس پور اور نادرن بائی پاس تک مفادات کا بے رحم کلہاڑا باغوں کے باغ کاٹتا چلا جارہا ہے اور اندیشہ یہ ہے کہ آخر ایک دن ہم مخصوص لذت کے ان آموں سے محروم ہوجائیں گے اور ہمارے بچے اور انکے بچے یہ کبھی نہیں جان پائیں گے کہ ان آموں کے نام پر ہمیں کیسی عیاشی میسر تھی اطلاعات ہیں کہ ایک ڈاکٹر صاحب جو ملتان سے رکن صوبائی اسمبلی بھی ہیں انکو یہ کٹے ہوئے درخت سپلائی کیے جائیں گے کیونکہ انکی ایک چپ بورڈ کی فیکٹری بھی ہے جسے کٹے ہوئے درخت بچپن ہی سے بہت پسند ہیں تو جب ایسے رکن اسمبلی ،بڑے بڑے بلڈرز اور طاقتور ادارے پیسے اور گھر بنانے پر تل جائیں تو پھر ان کے ہاتھ کون روک سکتا ہے۔باقی بچا حافظ کا سوہن حلوہ تو جیسے آج تک بابے کی قلفی اور اصل مسلم لیگ کا پتا نہیں چل پایا ویسے ہی کوئی نہ کوئی حلوہ حافظ کے نام سے دستیاب ہوتا رہے گا۔خدا نہ کرے کہ کسی دن مجھے تھائی لینڈ یا انڈونیشیا کی پیکنگ میں اصلی ملتانی انوررٹول سے واسطہ پڑ ے اور مجھے آم اور عام کے مطلب دیکھنے کے لئے کسی لغت سے رجوع کرنا پڑے۔
ملتان میں اس "قتل آم" پر برافروختہ سوشل میڈیا پر سیاپا کرنے اور تصاویر شیئر کرنے کے بجائے صرف ان ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ خریدنا چھوڑ دیں تو مسائل کم ہوسکتے ہیں لیکن کیا کریں ایسی بے رنگ زندگی جس میں منہ اٹھا کر کچھ بھی کہنے کی آزادی نہ ہو کس کام کی؟
٭…٭…٭