اسٹبلشمنٹ کا مطلب و مفہوم

Mar 25, 2021

فیصل ادریس بٹ

ہمارے ہاں تقریبا ہر شخص بالخصوص میدانِ سیاست کے نومولود سے لیکر زیرک سیاستدان تک کوچہ صحافت سے منسلک احباب نہ صرف یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کا لفظ روزانہ کئی بار اپنی تحریر و تقریر میں استعمال کرتے ہیں بلکہ اکثر و بیشتر اسٹیبلشمنٹ پر خوب تنقید بھی کرتے ہیں، خاص طور پر تحریک انصاف کی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد اسٹبلشمنٹ پر تنقید بہت زور پکڑ گئی۔ حالات اس قدر بگڑ  چکے کہ ریڑھی بان سے لیکر ایوان بالا میں بیٹھے تمام لوگ اس پر بحث کرنا اپنا حق گردانتے ہیں۔  میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ حضرات  اس اصطلاح کے صحیح مفہوم اور بنیادی خدو خال سے ناواقف  ہیں۔  کیونکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے ہاں بالعموم فوجی حاکمیت مراد لی جاتی ہے۔ حالانکہ فوج اسٹیبلشمنٹ کی ایک  اکائی ضرور ہے لیکن صرف  فوج پر پورے اسٹیبلشمنٹ کا اطلاق شاید درست نہ ہو. اسٹیبلشمنٹ دراصل ریاست کی اس غیر اعلانیہ منظم اور طاقتور بنیادی اکائی کا نام ہے جو تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہوتی ہے لیکن ریاستی نظام پر اثر انگیزی اور حکومتی امور میں فیصلہ سازی کے وسیع اختیارات کے باعث اکثریت پر بھاری بلکہ حاوی ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ فیصلہ کن طاقت اور سیاستدانوں کے لئے ناقابل تسخیر قوت آخر ہے کیا؟ اب میں اپ کو واضح طور پر اس کے معنی سمجھاوں گا جس سے آپ کو باقاعدہ طور پر سمجھ آ جائے گی کہ اسٹیبلشمنٹ حقیقت میں کون ہے اور وہ اپنا چہرہ سامنے لانے کی بجائے کس خوب صورتی سے توپوں کا رخ فوجی حاکمیت کی جانب موڑ کر اپنا کام بغیر الزام ایسے نجام دیتی ہے کہ آئندہ آنے والی حکومت بھی اسی کو گود لینے پر نہ صرف مجبور ہوجاتی ہے بلکہ اصل اسٹیبلشمنٹ کی دوبارہ اپنا کام انجام دینے کے لئے راہ بھی ہموار کرکے دیتی ہے۔ جیسا کہ روح کا نام ہم سب نے سنا ہے لیکن آج تک کسی ذی روح نے روح کی شکل و صورت نہیں دیکھی۔ یہ پورے وجود کا حصہ ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتی۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اسٹیبلشمنٹ ریاست کی روح کا نام ہے جو بظاہر نظر تو کسی کو بھی نہیں آتی لیکن عملًا پورے جسم کی حرکات و سکنات اور افکار و خیالات کو تقریباً وہی کنٹرول کرتی ہے. جس طرح روح طیب ہو تو انسان شریف اور روح خبیث ہو تو انسان شریر بالکل اسی طرح اسٹیبلشمنٹ شریف ہو تو ریاستی انتظام مضبوط اور اسٹیبلشمنٹ شریر ہو تو ریاستی نظام ناکام ہوتا ہے۔ درد کا احساس ہر انسان کو ہوتا ہے لیکن درد کا وجود کسی کو آج تک نظر نہیں آیا. درد ہمدردی میں بھی ہوتا ہے اور درد انتقام کا بھی ہوتا ہے۔ اول الذکر انسانیت کی حمایت کا روحانی جذبہ ہے اور دوسرا انسانیت سے بغاوت کا شیطانی حربہ ہے. ہمدردی مثبت عمل ہے اور انتقام منفی رد عمل کا نام ہے . گویا کسی بھی ریاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مثال روح اور درد کی ہے. اسٹیبلشمنٹ ریاست کی ’’روحِ رواں‘‘ بھی ہے اور ریاست کے لئے ’’دردِ سر‘‘ بھی.جس طرح موجودہ حکومت نے احتساب کے نام پر اصل قصور وار سول بیورکریسی کو ٹارگٹ کیا تو بیوروکریسی نے عوام دشمن پالسیز سے عوام کو حکومت کا دشمن بنا دیا اور عوامی ردعمل کو حکومت کے لئے اتنا منفی بنانے میں کردار ادا کیا کہ موجودہ حکومت ضمنی انتخابات مسلسل ہارتی چلی گئی اب آپ اندازہ لگالیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے ماتھے پر لگا سب سے بدنما داغ مہنگائی کا ہے۔ مہنگائی کی روک تھام مافیاز کی پکڑ دھکڑ زخیرہ اندوزوں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا اختیار و ذمہ داری فوجی حاکمیت کی ہے یا سول بیوروکریسی کی؟ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم سے لیکر صوبائی وزیر تک یہ چاہتے ہیں کہ مہنگائی کنٹرول ہو مگر اسٹبلشمنٹ کنٹرول تو دور کی بات روزانہ کی بنیاد پر حکومتی جگ ہنسائی میں کردار ادا کر رہی ہے۔ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ کسی جمہوری ریاست کے تین اہم اور بنیادی ستون ہوتے ہیں. مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ اگرچہ جدید جمہوری ریاستوں میں اپنی ہمہ گیر فعالیت اور عالمگیر اثرات کے باعث بعض حضرات میڈیا کو بھی ریاست کا چوتھا ستون قرار دیتے ہیں. بہر حال بنیادی ستون تین ہی ہیں البتہ چوتھے ستون یعنی صحافت کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ ریاست کے ان تین بنیادی ستونوں میں سے ہر ستون کا اپنا ایک الگ اور مخصوص دائرہ کار ہے. مقننہ سے مراد پارلیمنٹ یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی ہے. مقننہ کا کام قانون سازی ہے۔ عدلیہ سے مراد سپریم کورٹ اور اس کی ماتحت عدالتیں ہیں۔ عدلیہ کا کام قانون کی تشریح ہے۔ انتظامیہ سے مراد بیورو کریسی ہے. انتظامیہ کا کام قوانین کا نفاذ ہے۔
انتظامیہ کی دو اہم ذمہ داریاں اور دو بڑے شعبے ہیں۔ انتظامیہ کا ایک شعبہ داخلی دفاع اور دوسرا بیرونی دفاع کہلاتا ہے۔ داخلی دفاع سے مراد اندرونِ ملک رائج قوانین کا نفاذ اور نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہے۔ اس شعبہ کو سول بیورو کریسی کہتے ہیں جبکہ خارجی دفاع سے ریاست کی بیرونی سرحدوں کی حفاظت مراد ہے۔ اس شعبہ کو ملٹری بیورو کریسی کا نام دیا جاتا ہے۔ ملٹری بیورو کریسی میں بری فوج، بحری فوج، فضائی فوج اور تمام خفیہ ادارے شامل ہیں۔ اسی سول اور ملٹری بیورو کریسی کے مجموعے کا نام اسٹیبلشمنٹ ہے. اردو میں اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استقرار و استحکام اور انتظام و انصرام کے معانی میں استعمال ہوتا ہے. اب اندازہ کرنا بہت آسان ہوگا کہ ملک میں سرحدی دفاع خارجی دفاع کا نظام ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے مستحکم کئے ہوئے ہے یا نہیں؟ اور سول بیوروکریسی اندرون ملک کا نظام تباہ برباد کئے ہوئے ہے کہ نہیں ؟۔ان کو  اصولی طور پر ریاست میں ڈیمو کریسی اور بیورو کریسی کو ایک دوسرے کا معاون ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے یہاں دونوں نظام ایک دوسرے کے مدمقابل بنے ہوئے ہیں۔ ڈیمو کریسی کی اصطلاح یونانی الفاظ ڈیموس اور کریٹیا سے ماخوذ ہے جس میں ڈیموس کا مطلب  عوام ہے جبکہ کریٹیا کا مطلب حکومت اور اقتدار کے ہیں یعنی لوگوں کی حکومت یا عوام کا اقتدار. عوام کی رائے سے منتخب حکومت کو ڈیمو کریسی۔ ڈیمو کریسی یا جمہوریت کی سب سے معروف تعریف ابراہم لنکن نے کی تھی یعنی’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے مفاد کے لئے۔‘‘ اس تعریف کی رو سے یہ سول بالادستی کا نام ہے.
بیورو کریسی فرانسیسی زبان کے دو الفاظ بیورو مطلب ’’لکھنے کی میز‘‘ یعنی دفتر اور کریسی مطلب ’’نظام‘‘ سے ماخوذ ہے. بیورو کریسی کا مطلب میز یعنی دفاتر سے منسلک افراد کا نظام ہے۔ گویا بیورو کریسی سے مراد دفتری حکومت ہے. بیورو کریسی کا اطلاق سرکاری طور پر منتخب شدہ ایک ایسی عاملہ یا انتظامیہ پر ہوتا ہے، جس کا کام ضابطہ پرستی کے باعث طوالت آمیز ہو۔ اردو میں اسے نوکر شاہی کہتے ہیں۔کہتے ہیں کیا سول بیوروکریسی عوامی خادم ہے ؟  اس اصطلاح کی ابتدا اٹھارویں صدی میں فرانس میں رائج ہوئی جب بعض افراد کو نوابانہ خطابات دے کر باقاعدہ سرکاری عہدوں پر فائز کیا گیا۔ نپولین بونا پارٹ کے دور حکومت میں سرکاری محکموں کو بیورو اور حکومتی عہدیداروں کو بیورو کریٹ کہتے تھے۔ یورپ میں عموما اس اصطلاح سے ضابطہ پرست آفیسروں کا وہ ٹولہ مراد ہوتا ہے جو ریاست کا وفادار اور سیاسی طور پر غیر جانبدار ہوتا ہے. ترقی یافتہ ممالک میں اسٹیبلشمنٹ سے خادمانہ صلاحیت کے حامل حکومتی اہلکار جبکہ پسماندہ ریاستوں میں اس سے حاکمانہ ذہنیت کے زعم میں مبتلا سرکاری کارندے مراد ہیں۔(جاری)

مزیدخبریں