کوٹ متے خان راولاکوٹ سے تعلق رکھنے کے باوجود نستعلیق لہجے ،رواں اور شستہ لہجے میں اردو اور اسی روانی سے انگریزی بولنے والے سردار مسعود احمد خان تاریخ کے عجب موڑ پر ریاست جموں و کشمیر کے صدر ہیں۔ان کو معلوم ہوتا کہ ان کے دور میں کشمیر کا سودا کیا جائے گا تو طویل عرصہ سفارت کاری کے محاذ پر خدمات انجام دینے والا یہ مرنجان مرنج شخص شاید اس منصب کے لیے تیار نہ ہوتا۔سردار مسعود خان کی پیدائش سے تین سال قبل جب آزاد ریاست جموں و کشمیر کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے پہلے صدر سردار محمد ابراہیم خان ،سردار مسعود احمد کے خاندان اور علاقے سے تعلق رکھنے والے تھے ۔سردار ابراہیم خان اصول پسند اور کھرے آدمی تھے۔ان کی مجالس میں زمانہ طالب علمی میں بیٹھنے کا موقع ملا۔بہت ذہین و فطین اور حاضر جواب ہونے کے ساتھ ساتھ بذلہ سنج بھی تھے۔آزادکشمیر کا پہلا عارضی دارالخلافہ جنجال ہل راولاکوٹ سے جب مظفرآباد گیا تو بقول قدرت اللہ شہاب اور مولانا مظفرندوی نے خیال کیا کہ دارالخلافہ کی مسجد جو ترپال کی چھت سے بنی تھی اور ٹپکتی تھی، کو پکا کیا جائے ۔جب وہ اس پر عملی جامہ پہنانے جا رہے تھے تب سردار ابراہیم خان جو شاید کہیں باہر تھے وہاں پہنچے اور چلانے لگے کہ یہ تو عارضی جگہ ہے۔یہاں پکی مسجد کیوں بنانے چلے ہو،پکی مسجد اور پکی عمارات مسقل دارالخلافہ سری نگر میں بنائیں گے۔کہاں وہ جذبہ اور کہاں آج کے لوگمظفر آباد میں جوں جوں پکی عمارات بنتی گئیں توں توں آزادی کا جذبہ معدوم ہوتا چلا گیا۔سرخ اور دبیز قالینوں اور نیلی لائٹ والی فراٹے بھرتی گاڑیوں پر اقتدار کی جو رسہ کشی کا جو کھیل شروع ہوا، وہ یہاں تک پہنچا کہ متحدہ عرب امارات کے ایک وفد کو اس وقت کے وزیراعظم نے مہاجر کیمپ کا دورہ کروایا۔مظلومیت کا رونا رو کر جو کچھ اینٹھ سکتے تھے اینٹھا اور وفد نے ابھی کوہالہ پل بھی پار نہیں کیا تھا کہ کیمپ کے ترپال اتر کر گاڑیوں میں بند ہو کر سوئے شہر رواں دواں تھے۔ اس بیس کیمپ کے لوگ تو بہت معصوم اور نیک دل تھے۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ جب وہ کشمیر کے سیکرٹری جنرل ( آج کل کا چیف سیکرٹری ) تھے تو مظفر آباد جاتے ہوئے انھیں راستے میں ایک بوڑھے میاں بیوی ملے۔جو گدھے پر سامان لادھ کے جا رہے تھے۔گاڑی ان کے پاس روکی اور پوچھا کہ وہ کون ہیں اور کہاں جا رہے ہیں بوڑھے جوڑے نے بتایا کہ ان کی زمین سے سونا نکلا ہے اور وہ اس سونے کو بیت المال میں جمع کرانے جا رہے ہیں ۔دوسرا واقعہ بھی سن لیں ۔قدرت اللہ شہاب ہی لکھتے ہیں کہ وہ پاکستان کے دو وزیروں کے ساتھ مظفر آباد جا رہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ لوگوں کا ہجوم دیکھ کر گاڑی سے اترے اور لوگوں سے مخاطب ہوئے۔وہاں ایک شخص نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح لیبارٹری میں چوہوں پر تجربات کیے جاتے ہیں۔اسی طرح آپ پہلے کشمیر میں اسلامی نظام نافذ کریں اور پھر اس تجربے کے بعد پاکستان میں یہ نظام نافذ کریں۔تب ایک وزیر نے گلے سے لاکٹ نکالا اور کہا کہ یہ وہ نظام ہے جو چودہ سو سال پہلے آیا تھا اور یہی نظام نافذ ہو گا۔وہاں سے رخصت ہونے کے بعد جب ایک وزیر نے دوسرے سے پوچھا کہ یہ قران مجید کیا تاج کمپنی نے چھاپا ہے۔بہت خوبصورت ہے۔تب دوسرے وزیر نے قہقہ لگایا اور کہا کہ یہ تو صرف سادہ سا لاکٹ ہے۔تو جناب یہ تھے کشمیر کے لوگ اور بلاشبہ پوری قوم ایسی تھی لیکن اس قوم کی بدقسمتی کہ اس کو حکمران ٹھیک نہ ملے۔پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ ملٹری سول بیوروکریسی اور سیاستدانوں کی چالاکیوں اور عیاشیوں سے بھرپور داستان ہے۔معروف کشمیری دانشور ارشاد محمود کو میں نے کہا کہ یہ بندہ مجھے دوسرے صدور اور حکمرانوں سے مختلف لگتا ہے۔آزادکشمیر کے جتنے صدور اور وزیراعظم ہم نے دیکھے ان میں سے یہ سب سے زیادہ دانش مند اور پڑھے لکھے زیرک آدمی ہیں۔اور کیوں نہ ہوں،اقوام متحدہ میں مسقل مندوب رہنا شاید اتنا آسان کام نہیں اور پھر چین جیسے ملک میں سفیر کا فریضہ سر انجام دینا بھی کار گراں ہے۔لیکن سردار مسعود احمد خان ان امتحانوں میں سرخرو رہے۔گذشتہ ہفتے ان سے دو ملاقاتیں رہیں۔اگرچہ کھل کر تبادلہ خیال نہ ہو سکا لیکن ان کی شخصیت کی بہت ساری تہیں ضرور کھلیں۔پہلی ملاقات ہمارے بھائی اور دوست محمد مطلوب انقلابی تعزیتی ریفرنس میں ہو جو ہم نے سابق وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور برادر سید رفیع اللہ شیرازی کے ساتھ مل کر منعقد کروایا تھا اور جس میں محمد ولید انقلابی، سابق چئیرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل ر یٹائرڈ محمد افضل،سابق چیف جسٹس آزادکشمیر ابراہیم ضیائ، ایم ایل اے سردار صغیر چغتائی، وزیر سمال انڈسٹریز چوہدری شہزاد محمود، صاحب زادہ ذوالفقار، صاحب زادہ امتیاز ظفر،میجر حفیظ ،علامہ محمود تبسم سمیت پاکستان اور کشمیر کے اہل سیاست، اہل علم نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔اس کا تفصیلی احوال پھر انشاء اللہ ۔دوسری ملاقات میاں عبدالشکور کے ساتھ ہوئی جس میں رفاعی کاموں کے حوالے سے ہوئی۔دونوں ملاقاتوں میں،میں نے ان کو متفکر پایا، گہری سوچ ،الفاظ کا انتخاب اور ادائیگی ہر چیز سے ان کی نفاست اورشائستگی کا اندازہ ہو رہا تھا۔کم بولنا اور ٹھیک بولنا، اس کے برعکس وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر صاحب بہت بولتے ہیں اور اکثر اس بولنے پر بعد میں پریشان بھی ہوتے ہوں گے۔اسی تیز گفتگو میں انھوں نے اسلام آباد کی ایک مجلس کا حال بھی کہ دیا جس کو سن کر پوری قوم پر سکتہ طاری ہے، راجہ صاحب نے بتایا کہ کشمیر کا سودا ہو چکا ہے۔اور ہو سکتا ہے کہ میں کشمیر کا آخری وزیر اعظم ہوں۔
اگرچہ ہم نے مقتدر لبوں سے نجی محفلوں میں سن رکھا تھا کہ جناب وزیر اعظم عمران خان جب اقوام متحدہ سے خطاب کرنے گئے تھے تب ٹرمپ نے ان کو واضح کر دیا تھا کہ جو ہو چکا وہ ہو چکا اس سے آگے کی بات کریں جب یہی بات ہم نے بریڈفورڈ اور میرپور کے باسی اور تحریک آزادی کشمیر کے پرانے رہنما راجہ نجابت سے کہی تو وہ ہنس پڑے اور کہا کہ کشمیریوں نے اس بات کو نہ پہلے تسلیم کیا اور نہ آئندہ کریں گے۔تو یہ وہ ماحول ہے جس میں سردار مسعود احمد خان آزاد ریاست جموں و کشمیر کے صدر بنے۔اگرچہ ان کی مدت صدارت کا آخری سال ہے لیکن کیا وہ سردار ابراہیم خان والا 1948 کا ماحول واپس لا سکتے ہیں ۔کہ اب تو یہ بھی کہ دیا گیا ہے کہ ماضی کو دفن کر دیا جائے۔لیکن وزیرستان کے وہ لوگ جو جموں اور سری نگر میں دفن ہیں ان کا کیا کریں گے۔مقبول بٹ ،اشرف ڈار ،اشرف صحرائی ،بشارت عباسی اور برہان وانی تک شہادتوں کا ایک طویل سفر کہاں جائے گا سری نگر کا مزار شہیداں کدھر جائے گا۔سید علی گیلانی جو استقامت کا پہاڑ بن کے کھڑا ہے۔اور جس نے قربانیوں کی تاریخ میں نیلسن منڈیلا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اس کا کیا کریں گے۔ بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اور تو اور مسلم ممالک کے لوگ بھی کشمیر کو بھول گئے ہیں چند برس ادھر ریاض سے دبئی کے سفر میں میرے ساتھ ایک مسلم انجینئر سفر کر رہا تھا جس کا تعلق بھارت سے تھا اور وہ کویت میں ملازمت کر رہا تھا۔اس کے ساتھ گفتگو میں جب کشمیر کا ذکر آیا تو اس نے بالکل معمول کے انداز،میں بات کی اور کہا کہ وہاں مکمل امن ہے اور باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں۔میرے لیے اس کا یہ اطمینان حیران کن تھا۔لیکن بعد میں کئی ممالک خصوصا مسلم ممالک میں یہی تجربہ دیکھنے کو ملا۔سردار صاحب یہ کام کر جائیں۔کم از کم امت کی نئی نسل کو کشمیر کا مسئلہ سمجھا دیں۔سب کو ساتھ لے کر جائیں اور وہاں کے عوام کو کشمیریوں کے رستے ہوئے زخم دکھا دیں۔اندھیرا کتنا ہی گہرا ہو ،روشنی کی ایک کرن سے ختم ہو جاتا ہے۔رات کتنی ہی تاریک اور سیاہ کیوں نہ ہو،سحر نے تو نمودار ہونا ہے اور اس کو کوئی کیوں کر روک سکتا ہے۔