اسلام آباد (عترت جعفری) پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سیاسی صورت حال پر غور کے بعد رات گئے اپوزیشن کی تمام قیادت شہباز شریف کی رہائش گاہ پر جمع ہوئی جس میں قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس کے بارے میں غور کیا گیا۔ پی پی پی کی قیادت نے ایم کیو ایم کے ساتھ بات چیت سے آگاہ کیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومتی حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کے لئے پی پی پی نے جو آپشن تیار کئے ہیں ان کے بارے میں بتایا، ان آپشن میں ایک یہ بھی ہے کہ اجلاس میں تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور حکومت کو موقع نہ دیا جائے کہ وہ ہنگامہ آرائی کو بہانہ بنا سکے ۔ اجلاس میں سپیکر کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پر غور کو تاخیر کا شکار کرنے کے ممکنہ طریقوں کو زیر غور لایا گیا اور تجویز کیا گیا ہے کہ قواعد کی خلاف ورزی کا مقابلہ ایوان ہی میں کیا جائے اور اسے کسی عدالتی فورم پر چیلنج نہ کیا جائے۔ شرکاء کی رائے تھی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے معاملہ میں آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے تاہم اس کو بھی کسی فورم پر ابھی نہ اٹھایا جائے، اور ساری توجہ عدم اعتماد کی تحریک پر رکھی جائے، اجلاس میں پارٹی ممبران کو پی پی پی کی دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت، ایم کیو ایم کے ساتھ بات چیت کی پیشرفت اور دوسری حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے بارے میں اعتماد میں لیا گیا، ان ارکان کو بتایا گیا کہ اپوزیشن کی نمبر گیم پوری ہے، اس بات کا دھیان رکھا گیا ہے کہ اپوزیشن ارکان میں سے اگر کچھ ادھر ادھر ہوتے ہیں تو بھی 172کی تعداد شو کر دی جائے گی، اجلاس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ وفاقی کابینہ کے کچھ ارکان بھی رابطے میں آئے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام ارکان قومی اسمبلی نے شرکت کی۔ اجلاس میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرنز کے اراکین اسمبلی کو قومی اسمبلی کے اجلاس اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بھی ضروری ہدایات دیں۔ انہیںکہا گیا کہ تمام ارکان اجلاس میں موجود ہوں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک اور منی اجلاس میں وزیراعظم کی جانب سے بار بار ترپ کا پتا ہونے کے بیانات پر بھی غور کیا گیا، سینئر رہنمائوں نے وزیر اعظم کی طرف سے ممکنہ اقدات بتائے۔ تاہم یہ کہا گیا کہ قدم سامنے آنے پر ہی اس پر رائے دی جائے گی۔ دریں اثنا گذشتہ روز پی پی پی کے رہنمائوں نے میڈیا سے گفتگو بھی کی۔ پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمن نے کہا وزیراعظم عمران خان یہ سن لیں کہ ملک میں بادشاہت نہیں ہے، آئین سب سے بالا ہے اسے توڑنے کی کوشش نہ کریں۔
اسلام آباد (خبر نگار/نوائے وقت رپورٹ) شہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان کو ان کے سرپرائز سے پہلے سرپرائز دیں گے۔ آنے والے دنوں میں مزید سرپرائز دیں گے۔ عمران خان کو اقتدار پیارا ہے۔ اقتدار کے بغیر ایک منٹ بھی نہیں رہ سکتے۔ سپیکر آئین سے انحراف کر چکے ہیں۔ دن رات جھوٹ بولا جاتا ہے۔ عوام مہنگائی میں جھلس رہے ہیں۔ عمران اقتدار کیلئے ہر قیمت دینے کو تیار ہیں۔ پونے چار سال انتہائی تکبرانہ انداز اپنایا۔ وزیراعظم سمجھتے ہیں ان کو اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی ضرورت نہیں۔ لوگوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ عمران خان کہتے تھے کہ آزاد امیدواروں کو نہیں لوں گا۔ آزاد امیدواروں کو بنی گالہ میں تحریک انصاف کا دوپٹا پہنایا گیا۔ سپیکر کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں جو قانون شکنی وہ کر چکے ہیں آرٹیکل 6 لگے گا۔ تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کو جمع کی گئی۔ سپیکر جان بوجھ کر تاخیر کرتے رہے۔ عمران خان کے ذہن کا مرض بڑھتا جا رہا ہے، اس کو مزید بڑھائیں گے۔ عمران خان کی پالیسی ہے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘ عمران خان چاہتے ہیں کہ ان کے پاس اقتدار نہ رہے تو کسی کو نہ ملے۔ وہ چاہتے ہیں کہ غیر آئینی اقدام ہو جائے، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہم ہر وہ قدم اٹھائیں گے جو غیر آئینی قدم سے پاکستان کو بچا لے۔ آج سپیکر سے کہیں گے فاتحہ خوانی کے بعد کارروائی شروع کریں۔ سپیکر کارروائی شروع نہیں کرتے تو ہر آئینی‘ قانونی‘ سیاسی گر استعمال کریں گے۔ مجھ سے ایک جملہ ادا ہوا تھا تو ہمیشہ پیشمان رہا اور عوام سے معافی مانگی تھی۔ عمران خان میں خود احستابی موجود نہیں ہے‘ بے ضمیر اور پتھر دل ہیں۔ عمران خان تاریخ کے بد ترین فاشسٹ ہیں۔ انہوں نے اقتدار کیلئے گھٹنوں کو ہاتھ لگائے۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں نے ادویات مہنگی کیں احتساب کے نام پر اپوزیشن سے انتقام لیا گیا۔ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اگلا مرحلہ بڑا چیلنج ہے اگر انہیں راتوں کو نیند نہیں آتی تو یہ عوام کی خدمت کرتے۔ اتفاق رائے سے خارجہ پالیسی‘ معیشت پر چارٹر طے کریں گے۔ تحریک عدم اعتماد ہر حوالے سے کامیاب ہو گی۔ عوام کیلئے یہ قدم اٹھانا پڑا یہ قدم نہ اٹھاتے تو عوام ہمیں معاف نہ کرتے۔ ہارس ٹریڈنگ سے قبل انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے حکومت کے اتحادی کہتے نہیں وقت دیں سوچ بچار کر رہے ہیں۔ اتحادیوں کو قائل کر رہے ہیں وہ ہمارے مؤقف سے اتفاق بھی کر رہے ہیں ضمیر کی آواز پرآنے والے دنیا کو اپنا پیغام دے رہے ہیں۔ ہماری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں‘ ہماری لڑائی مہنگائی اور غربت کیخلاف ہے۔ صلح کس بات کی‘ ہم کس بات پر کمپرومائز کریں؟۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ جو انا پرست ہے۔ عمران خان باہر نکلیں‘ ہر چوراہے‘ ہر گاؤں میں اس کا مکروہ چہرہ قوم کو دکھاؤں گا۔ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عام انتخابات کا فیصلہ مشاورت سے ہوگا۔