مودی کی جانشینی اور تحریک عدم اعتماد ! 

وطن عزیز میں ان دنوں ہر سو ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ تجزیے جاری ہیں کہ اپوزیشن اپنے اس ایڈونچر میں کس حد تک کامیاب ہو پائے گی ؟ یا حکومت کے اپوزیشن کا یہ حربہ ناکام کرنے کے چانسز کیا ہیں۔ ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیاء کی سیاست میں ’’ تحریک اعتماد‘‘ یعنی Vote of Confidence اور تحریک عدم اعتماد Vote of no Confidence کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور پاکستان و بھارت میں اپوزیشن برسراقتدار جماعت کو حکومت سے بے دخل کرنے کیلئے گاہے بگاہے یہ حربہ استعمال کرتی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہاں پڑوسی بھارت میں عدم اعتماد کی تحاریک اور ان کے اثرات پر ایک اچٹتی نظر ڈالنا بے جا نہ ہو گا۔ 1999 میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے خلاف سونیا گاندھی کی قیادت میں کانگرس نے تحریک عدم اعتماد پیش ک ۔ مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی نے اس دوران بی جے پی کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی مگر لوک سبھا میں اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دیا، یوں اپوزیشن واجپائی حکومت کو محض ایک ووٹ سے شکست دیگر اقتدار سے بے دخل کرنے میں کامیاب ٹھہری۔ اس واقعے سے تین سال قبل کانگرس کی حمایت سے ایچ ڈی دیوی گوڑا ہندوستان کے وزیراعظم بنے تھے۔ کچھ عرصہ تو یہ گٹھ جوڑ کامیابی سے آگے بڑھا مگر پھر دس ماہ بعد ہی کانگرس نے دیوی گوڑا کی حمایت سے ہاتھ کھینچھ لیا، لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اور یہ تحریک بھی اپوزیشن کی فتح پر منتج ہوئی۔ اسی طرح آج سے 32 برس قبل 1990 میں وشواناتھ پرتاب سنگھ نے محض 11 ماہ بطور ہندوستانی وزیراعظم اقتدار کے مزے لئے مگر اچانک بی جے پی نے بابری مسجد اور رام مندر تنازعے پر حکومت کے خلاف جانے کا فیصلہ کیا، 10 نومبر 1990 کو تحریک عدم اعتماد لوک سبھا میں پیش ہوئی اور وی پی سنگھ بھی اقتدار سے باہر ہو گئے۔ دوسری جانب چند روز قبل 10 مارچ کو پانچ بھارتی ریاستوں کے انتخابی نتائج سامنے آئے۔ ان نتائج میں سب سے غیر متوقع نتیجہ بھارتی
 پنجاب کا تھا جہاں اروند کجریوال نے اپنے انتخابی نشان ’’ جھاڑو‘‘ سے تمام جماعتوں کا صوبائی اسمبلی سے تقریباً صفایا کر دیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی کل تعداد 117 ہے، یوں حکومت بنانے کیلئے کسی جماعت کو 59 نشستیں درکار ہوتی ہیں ، مگر ان انتخابات میں عام آدمی پارٹی، جسے عرف عام میں ’’ آپ‘‘ AAP کہا جاتا ہے ، نے 92 نشستیں 
حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا۔ کانگرس کے حصے میں محض 18 سیٹیں آئیں جبکہ شرومنی اکالی دل کو 3 اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو محض 2 نشستیں ہی حاصل ہو سکیں۔ ماہرین کے مطابق پنجاب میں ’’آپ‘‘ کی اس جیت میں اروند کجریوال کے ’’ دہلی ماڈل‘‘ نے مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ امر اپنی جگہ حیران کن ہے کہ پنجاب میں تقریباً تمام بڑے سیاسی رہنما اپنی نشستیں ہی نہیں جیت پائے بلکہ عام آدمی پارٹی کے نئے امیدوار وں نے ان رہنمائوں کے آبائی علاقوں سے انکے پائوں اکھاڑ دیئے۔ یاد رہے کہ نوجوت سنگھ سدھو، چرنجیت سنگھ چنی، کیپٹن (ر) امریندر سنگھ، پرکاش سنگھ بادل اور سکھ بیر بادل اپنے حلقوں سے ہی کامیابی درج نہیں کرا پائے۔  بھارتی پنجاب میں ملی زبردست جیت کے بعد عام آدمی پارٹی کی قوت راجیہ سبھا میں بھی بڑھ جائے گی۔ یاد رہے کہ رواں ماہ کی آخری تاریخ کو راجیہ سبھا کی 13 نشستوں کیلئے انتخابات ہوں گے۔ اس وقت عام آدمی پارٹی کے انڈین سینیٹ میں تین سینیٹر ہیں۔ پنجاب کے انتخابی نتائج کے بعد راجیہ سبھا میں ’’آپ ‘‘کو مزید چھ نشستیں مل جائیں گی جس سے اس کی قوت 9 ہو جائے گی۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت راجیہ سبھا میں بی جے پی 97 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی ہے جبکہ کانگریس 34 ارکان کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ تیسرے نمبر پر ممتا بینرجی کی ترنمول کانگرس، چوتھے پر ایم کے سٹالن کی ڈی ایم کے اور پانچویں پر بیجو جنتا دل ہے۔ اڑیسہ سے تعلق رکھنے والی بی جے ڈی کے ممبران کی تعداد بھی 9 ہے جو اب عام آدمی پارٹی کی بھی ہو جائیگی۔ راجیہ سبھا میں سماج وادی پارٹی کے 5 ارکان ہیں جو پانچ ہی رہیں گے جبکہ بی جے پی کو دو سیٹوں کا نقصان ہو گا۔دیگر 4 صوبوں اترپردیش، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور کے انتخابی نتائج پر نگاہ ڈالیں تو ان تمام ریاستوں میں آر ایس ایس کا ’’ہندو کارڈ ‘‘ بھرپور طریقے سے چلا اور بی جے پی کو یہاں کامیابی حاصل ہوئی۔ اترپردیش کی 403 رکنی اسمبلی میں سادہ اکثریت کیلئے 202 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ یہاں سے بی جے پی کو 255 ، سماجوادی پارٹی کو 111 ، اپنا دل کو 12 ، راشٹریے لوک دل کو 8  جبکہ نشاد پارٹی کو 6 نشستیں حاصل ہوئیں۔ اترپردیش میں حجاب معاملے کے بعد سے مسلم ووٹ کافی حد تک متحد ہو چکا تھا جو ادھر ادھر استعمال ہونے کی بجائے سارے کا سارا سماجوادی پارٹی کے حصے میں آیا۔بی جے پی کے ہندو ووٹ بینک میں اضافے کی ایک بڑی وجہ مایاوتی کا انتخابات میں سرگرم نہ ہونا تھا۔ وہ بالکل بیک فٹ پر رہ کر چھوٹے موٹے بیانات دیتی رہی، یوں ان کا دلت ووٹ بینک BJP کیش کرانے میں کامیاب رہی۔ جب تمام مسلم ووٹ بنک ایک جانب متحد ہو گیا تو BJP نے اسی کو بنیاد بنا کر ہندو ووٹ بینک مقدور بھر سمیٹا۔یہ تاثر بھی عام ہے کہ درپردہ مایاوتی اور مودی کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوا جس کے عوض بہوجن سماج پارٹی کا ووٹ بھی بی جے پی کو گیا۔ مایا وتی نے انتخابی نتائج کے بعد ایک خط لکھ کر BJP پر اس جیت کا احسان بھی جتایا ہے۔ 
بہرحال اترپردیش کی واضح جیت کے بعد یوگی ادتیہ ناتھ کا قد کاٹھ بہت بڑھ گیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی میں مودی کا رتبہ سب سے بلند سمجھا جاتا ہے جبکہ امت شاہ کو انکے بعد مقدم ترین رہنما سمجھا جاتا ہے۔ عرصہ دراز سے تیسرے اہم ترین شخص کی جگہ کوئی پُر نہیں کر پایا، اب بھارت میں مختلف حلقوں کی جانب سے یوگی کو مودی کا ’’جانشین‘‘ قرار دیا جا رہا ہے اور انھیں بی جے پی میں مودی اور امت شاہ کے بعد تیسرا اہم ترین شخص قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اتنے بلند مرتبے کے بعد یوگی ادتیہ ناتھ کے پائوں میں ’’وزارت اعلیٰ‘‘ کا جوتا چھوٹا پڑنے لگ گیا ہے۔ یوں بھی مودی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ 75 سال کی عمر میں سیاست کو خیرباد کہہ کر محض ’’مارگ درشک‘‘ ( قائد) کا کردار ادا کریں گے۔ اب چونکہ یوگی کو مودی کا متبادل قرار دیا جا رہا ہے تو یہی مانا جا سکتا ہے کہ یوگی ہی بھارت میں ’’اگلے مودی ‘‘ ہوں گے۔ بہرحال اس حوالے سے ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے ! 

ای پیپر دی نیشن