ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ 

اپوزیشن کی محفل کشت زعفران بنی ہوئی ہے کیونکہ اس وقت حکومت کے دو درجن کے قریب لوگ اپوزیشن کے پاس ہیں ۔پہلے وہ سندھ ہائوس میں تھے لیکن اب پارلیمنٹ لاجز میں واپس چلے گئے ہیں۔حکومت کو چھوڑ کر یہ ایم این ایز وہ ہیں جو اپنا ضمیر تب سے بیچ رہے ہیں جب سے اسمبلی میں پہنچے ہیں ۔ سابقہ دورِ اقتدار میں بھی یہ لوگ اپنی پارٹیوںسے دغا کرتے آئے ہیں۔ میاں نواز شریف کی جماعت پر جب مشکل وقت شروع ہوا تو تب بھی یہی لوگ تھے جنہوں نے مشکل وقت میں میاں نواز شریف کے پیٹھ میں چھرا گھونپا اور بھاگ کر بنی گالہ میں جا کر اپنے گلے میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے جھنڈٖا ڈلوا لیا اور عمران خان کے ساتھ شامل اقتدار ہو گئے ۔ ساڑھے تین سال میں جب تک حکومت اور مقتدر حلقوں کے درمیان حالات بہتر رہے تب تک یہی لوگ عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے اور جیسے ہی حکومت پر کچھ مشکل وقت ا ٓیا ہے تو انہوں نے اپنی آنکھیں پھیرناشروع کر دی ہیں۔ اب عمران خان کو بنی گالہ سے باہر نکل کر سوچنا ہو گا کہ 2018 ء کا دور عمران خان کیلئے بہت سازگار تھا پاکستان کا نوجوان اُس وقت سابقہ کپتان عمران خان کے سحر میں مبتلا تھا۔ نوجوان پاکستان میں تبدیلی چاہتے تھے اورعمران خان کو ایک موقع دینا چاہتے تھے۔ ایسے ایسے نوجوان عمران خان کے ساتھ کام کر رہے تھے کہ جب سے عمران خان نے سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی تھی وہ تب سے عمران خان کے ساتھ کندھے سے کندھاملا کر کھڑے تھے لیکن جب عمران خان کو عروج ملا تو عمران خان نے بھی دوسرے سیاسی لیڈرئوں کی طرح اپنے مخلص ورکرز کو چھوڑ کر دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگوں کو ٹکٹ دیا ۔جن لوگوں نے عمران خان کا ساتھ بائیس سال تک دیا اُن کو عمران خان اپنے عروج کے دِنوں میں بھول گئے۔میری سوچ ہے اگر عمران خان 2018 ء میں پارٹی ٹکٹ اپنی پارٹی ورکرز کو دیتے تو آج عمران خان جس مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں اس کا شکار نہ ہوتے ۔ عمران خان اپنی پارٹی پر نظر دوڑائیں کیا عمران خان کے کسی نظریاتی رکن نے بھی اس مشکل میں عمران خان کا ساتھ چھوڑا ہے نہیں !یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے مفادات کیلئے ہر بار پارٹی چینج کرتے ہیں۔ عمران خان کو اب بھی سوچنا ہوگا کہ دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگوں کی بجائے اپنے ورکرز کو ٹکٹ دیں تو وہ کبھی بھی عمران خان کو نہیں چھوڑیںگے ۔اور نئے لوگ بھی اسمبلی میں آئینگے۔ آج بھی عمران خان کیلئے دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگوں نے مشکلات پیدا کی ہیں ۔ عمران خان کی پارٹی کے پرانے لوگ تو اب بھی عمران خان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
راجہ ریاض پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے اس سے پہلے وہ 2008 ء میں جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو صوبائی کابینہ میں سینئر وزیر تھے ۔جب تک پیپلز پارٹی کا عروج رہا راجہ صاحب پارٹی کے ساتھ رہے جیسے ہی مشکلات نے پارٹی کو گھیرا تو راجہ ریاض بھی پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ عمران خان نے 2018 ء میں این اے 110 فیصل آباد سے راجہ ریاض کو ٹکٹ جاری کر دی ۔ راجہ ریاض کے مقابل مسلم لیگ ن کے سابقہ وزیر خزانہ رانا افضل خان تھے ۔ رانا افضل خان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے جنہوںنے کبھی بھی پارٹی کے ساتھ بیوفائی نہیںکی ۔ رانا افضل خان کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے رانا احسان افضل جو کہ ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے اور اپنے والد کے مشن کو پورا کرنے کیلئے دِن رات ایک کر رہا ہے۔ اب مسلم لیگ ن کا بھی امتحان ہے کہ ایک طرف تو اپنی پارٹی کا وفادار ساتھی ہے دوسری طرف ایک مفاد پرست جو ہر دور میں حصول اقتدار کے لئے پارٹیوں سے بیوفائی کرتا آرہا ہے۔
باسط سلطان بخاری 2002 ء مسلم لیگ ق کے ساتھ ایم این اے اور دوسرا بھائی ہارون سلطان بخاری صوبائی وزیر پرویز الہٰی کے ساتھ تھے۔ جب مسلم لیگ ق پر مشکل وقت آیا تو فوراََ ق لیگ کو خدا حافظ کہا اور مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی ۔ مسلم لیگ ن جب مشکلات کا شکار ہوتی نظر آئی تو باسط سلطان بخاری نے خفیہ طور پر عمران خان کے ساتھ ملاقاتیں شروع کردیں اور ساتھ اپنی بیوی کیلئے ایم این اے کا ٹکٹ بھی شامل کر لیا۔جب عمران خان نے دو ٹکٹ دینے سے انکار کیا تو پھر باسط بخاری نے آزاد الیکشن لڑا ۔ لیکن اس بار باسط بخاری کے بھائی ہارون نے باسط کا ساتھ نہیں دیا اور مسلم ن کے ساتھ ہی رہا۔ اپوزیشن اور حکومت کو اِن ارکان کیخلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی جس سے اس طرح کے مفاد پرست لوگ اسمبلی نہ پہنچ سکیں  ۔ اگر ابھی بھی سیاسی لوگوں نے اس سے سبق نہ سیکھا تو پھر جمہوریت کا راگ الا پنے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ پاکستان سپریم کورٹ ، الیکشن کمیشن اور پارلیمینٹ کو مل کر ہارس ٹریڈنگ جیسی لغت کے خاتمے کیلئے سنجیدگی سے پالیسی بنا نی چاہیے تاکہ ایک معیار قائم ہو اور لوگوں میں بھی سیاست کے معاملے میں عدم اعتماد کا خاتمہ ہو۔

ای پیپر دی نیشن