کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی

Mar 25, 2022

رسوڑے میں کون تھا''۔۔۔ ساس بہو کی چپقلش پر مبنی بھارتی ڈرامے کی وائرل ویڈیو کا یہ ڈائیلاگ تو آپ نے سنا ہوگا۔ جس میں کوکیلا بین اپنی بہو راشی کو پریشر ککر میں چنے ڈالے بغیر چولہے کو چلانے پر بہو کو خاصا جھنجھوڑتی نظر آتی ہیں۔ پاکستانی اور بھارتی ڈراموں میں ساس بہو کا موضوع فیورٹ رہا ہے۔ جس طرح ناراض اپوزیشن حکومت سے اکھڑی اکھڑی رہتی ہے ویسے ہی ان ڈراموں میں ساس بہو سے۔ ایسے تمام ڈرامے بھرپور ریٹنگ حاصل کرتے ہیں جو ساس بہو کی تکرار پر مبنی ہوتے ہیں کیونکہ برصغیر پاک و ہند میں بیشتر دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی ذہنیت ایسی ہے وہاں ایسے مواد کو ہی ترجیح دی جاتی ہے اور یہ کہانی صرف پاکستان،ہندوستان کے گھروں تک محدود نہیں رہی بلکہ پوری دنیا تک پھیل گئی ہے۔ اس کا اندازہ برطانوی ملکہ الزبتھ اور پوتے کی بہو میگن مارکل کے درمیان سرد جنگ سے لگایا جا سکتا ہے اور جہاں تک ساس بہو کے جھگڑوں کا تعلق ہے اسکی بنیادی وجہ کم علمی اور دینیات سے کم لگاؤ ہے۔ جہالت کی بنا پر کچھ خواتین جذباتی ہوتی ہیں اور معمولی باتوں پر اٹک کر غلط فہمیوں کو پروان چڑھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتیں۔انہی گھریلو سازشوں سے بات لڑائی جھگڑوں اور نفرت تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر گہرائی سے ان جھگڑوں کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملتی۔ گھروں میں ساس بہو کی لڑائیاں ذیادہ تر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ہوتی ہیں۔ بہو کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ یہ میرے اپنے نہیں ہیں اس لئے اول روز سے محبت پیدا نہیں ہوتی۔ لڑکیوں کو یہ بات ازحد ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر خاندان کے اپنے طور طریقے اور ملنے جلنے کے آداب ہوتے ہیں، معاملات طے کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ جب نئی نویلی بہو ان حقائق کو یکسر نظر انداز کرکے اپنے طور طریقوں کو مسلط کرنا چاہے گی تو نتیجتاً لڑائی جنم لے گی۔ یہی حال ساس کا ہے کہ وہ بہو کو اپنی بیٹی نہیں سمجھتی اور بہو کے آنے سے پہلے ہی یہ منصوبہ تشکیل پا چکا ہوتا ہے کہ کیسے بیٹے کو قابو میں رکھنا ہے اور بہو سے تو گھر کا سارا کام کاج کروانا ہے۔ یقین کیجئے کہ بعض خواتین کے اندر احساسِ ملکیت اتنا ہوتا ہے کہ اس میں شراکت برداشت کرنا قابلِ قبول نہیں ہوتا کیونکہ جب ایک عورت بہو بن کر آتی ہے تو بیٹے کے وقت اور مال و دولت میں بھی شریک بنتی ہے۔ عام طور پر ساس کو بہو کی جو باتیں سب سے ذیادہ کھٹکتی ہیں وہ اس کا بناؤ سنگھار اور شوہر کے ساتھ ذیادہ اٹیچ رہنا ہے حالانکہ وہ خود بھول جاتی ہے کہ وہ بھی کبھی اس مرحلے سے گزری تھی۔ دراصل ایک ساس نے اپنی زندگی کے آغاز میں سسرال میں اچھے دن نہیں دیکھے ہوتے لہٰذا وہ دل میں مصمم ارادہ کر لیتی ہے کہ آنے والی بہو کو کچھ تو پتہ ہونا چاہیے کہ سسرال میں کیسے رہا جاتا ہے۔ پکی پکائی کھیر کی عادی تو نہ بنے ذرا جوکھم تو اٹھائے۔ افسوس یہ بات ساس کو بھی سوچنی چاہیے کہ 30 سال قبل جس بات میں وہ کراہت محسوس کرتی تھی۔ آج کی اپ ٹو ڈیٹ بہو کیلئے کیونکر پسندیدہ ہو سکتی ہے؟ انہی گھریلو سازشوں سے گھر کا سکون غارت ہو جاتا ہے ان نزاعات کا تصفیہ کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ ایسی صورتحال میں بڑے سمجھدار اور زیرک مرد بھی بے بس ہو جاتے ہیں کہ ''کروں تو کیا کروں''۔ دراصل شادی شدہ مرد اپنی ذات میں چھوٹا سا ''مقبوضہ کشمیر'' ہوتا ہے جو ماں اور بیوی کے درمیان پھنسا کسی غیبی مدد کا منتظر رہتا ہے۔ شوہر کو چاہیے کہ ایک کان سے والدہ کی اور دوسرے سے بیوی کی سنے اور ان دونوں کانوں کے درمیان جو دماغ اسے اللہ رب العزت نے عطا کیا ہے اس سے سوچ کر فیصلہ کرے کہ گھر ٹوٹنے سے بچانے کیلئے کون سی اعتدال کی راہ اختیار کی جائے۔ خاندانی سسٹم کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے ضروری ہے کہ ساس بہو ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھیں۔ یہ بات طے ہے کہ کسی کو بھی سمجھانے کیلئے درست وقت کا انتخاب ضروری ہے۔ پیار سے بہو کوپسند و ناپسند کے متعلق سمجھایا جائے اور گھریلو امور کی آگاہی ایسے دی جائے جیسے اپنی حقیقی بیٹیوں کوسمجھایا جاتا ہے یوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے الزامات نہ لگائیں، شکوک و شبہات کو جگہ نہ دیں۔ منفی سوچ کو ختم کریں مثال کے طور پر بہو کی کوئی سونے کی چیز گم جائے تو بہو کا شک پورے سسرال پر اور ساس سوچ رہی ہوتی ہے کہ ''وہ اپنی اماں کو چپ کرکے دے آئی ہوگی''۔الغرض کہ ساس کو چاہیے کہ ہر معاملہ پر بہو کی رائے کو اہمیت دے۔ شفقت بھرا ہاتھ بہو کے سر پر رکھے تو سماج میں خاندانی سسٹم کی فضا یقیناً بہتری و سکون کی جانب جائیگی۔ گھرہستی کے مفاد کی خاطر قربانی دینا آسان نہیں ہوتا مگر کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ بہو پر لازم ہے کہ ساس کسی وجہ سے پریشان ہو تو اسکی دلجوئی کرے۔گھر کے افراد کے آپس میں جھگڑے میں تجسس، ٹوہ نہ رکھے،حکمت عملی سے غیرجانبدار رہ کر صلح کی سعی کرے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آجکل ہمارے ہاں لڑکیوں کی تربیت کے ضمن میں والدین سست روی کا شکار ہو گئے ہیں۔ انہیں برداشت کرنے کی ٹریننگ دیں تاکہ وہ اپنے سگھڑ پن سے گھریلو ماحول میں عدم توازن کا باعث نہ بنیں۔  

مزیدخبریں