بریدہ سر ... ملک کاشف اعوان
me.malik@hotmail.co.uk
1999میںاقوامِ متحدہ کے عالمی ثقافتی ادارے یونیسکو نے 21 مارچ کو شاعری کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔یہ دن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے بعد سے منایا جا رہا ہے جس کا مقصد پوری دنیا میں شاعری کے متعلق پڑھنے، پڑھانے، اس کو چھاپنے اور نئے شعرائ کو شاعری کی طرف مائل کرنا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے وسیع ترین تقریبات روس میں منعقد کی جاتی ہیں جہاں ایک عالیشان تقریب 'ایوانِ ادبائ میں منعقد کی جاتی ہے جس میں ماسکو میں متعین اقوامِ متحدہ کا ادارہ بھی شریک ہوتا ہے۔ پورے یورپ میں نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی کے لیے 21 مارچ کو ان کی شاعری تخصّص کے ساتھ شائع کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر 'سال کے بہترین شاعر' اور 'سال کے بہترین مصنف' کے اعزازات کا اعلان کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 23 سے 24 سو سال قبل از مسیح میں رنگ و اسرار کی سرزمین ایران کی ایک قدیم ریاست کی شہزادی این ہید?وآنا نے اپنی وارداتِ قلبی کے اظہار کے لیے لفظوں کے ایک خاص آہنگ اور رعنائیت کا سہارا لیا جسے بعد میں معلوم تاریخ کی پہلی شاعری قرار دیا گیا۔ دنیا میں اس وقت 75 قابل ذکر زبانوں میں بہترین شاعری کی جا رہی ہے۔ جب کہ نمایاں ترین شاعری کی بات کی جائے تو سرخیل شاعری میں ایک نام اردو شاعری کا بھی لیا جاتا ہے۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ شاعری کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر کی شاعری کی تحاریک میں ایک قابلِ ذکر نام اردو شاعری کے احیاء اور فروغ کے لیے کوئی قابلِ قدر تقریب منعقد نہیں کی جاتی۔ ہمارے ہاں المیے اور رشک کے جذبات تحرّک کا روپ دھار کر مصرعوں کی شکل اوڑھ لیتے ہیں۔ اندر کے گہرے سکوت کو توڑنے کے لیے جو نغمگی لبوں کے کواڑ توڑ کر باہر نکل آئے شاعری کا روپ دھار لیتی ہے۔ ہمارے ہاں اس خود رو پنیری کو سنبھالنے کی کوئی داغ بیل کبھی ڈالی ہی نہیں گئی۔
شاعری جیسے سلسبیل سی ایک لہر ہے.جو کام بعض اوقات براہ راست زبان نہیں کر سکتی وہ کام آنکھیں کرتی ہیں یا شاعری۔ کسی تک اپنے احساسات پہنچانے کا بہت خوبصورت وسیلہ شاعری ہی تو ہے۔ کہتے ہیں کہ شاعری احساسات کی زبان ہے۔ محبت کی زبان ہے اور احساسات تو ازل سے سچے ہوتے ہیں۔ حقیقی ہوتے ہیں۔شاعری کی وہ حسیں وارداتیں جو آج ہم تک پہنچی ہیں کتنے ہی دوراہوں سے گزر کر آئی ہیں۔ اردو شاعری کی تاریک راہوں میں اپنے لہو سے چراغ جلانے والے کئی ایک نام ایسے بھی ہیں کہ جن کی خدمات کا احاطہ کرنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں مگر مقام کفِ افسوس تو یہی ہے کہ ان کا نام تک نہیں کسی کو یاد۔ ہمارے ہاں ایک بھیڑ چال کا عالم ہے کہ ہر چیز کا کریڈٹ مغل شہنشاہوں کو دے دیا جائے۔ ایک عرصے تک ہم اردو زبان کو بھی انہی مغلوں کی عطا سمجھتے رہے ہیں۔ درحقیقت اردو ہماری ہند کی بہتیری زبانوں کا مجموعہ ہے جس کو چاشنی فارسی، عربی اور ترکی نے بخشی ہے۔ پنجاب اور دکن کی خدمات کو کسی طور بھی بھولا نہیں جا سکتا۔ شمالی ہند اور جنوبی ہند کے دو بہت بڑے ادوار ہیں جنہوں نے اردو زبان کی ترقی و ترویج میں نہ بھولنے والا کردار ادا کیا۔ پھر دبستان دلی و دبستان لکھنو نے اسے وہ عروج و بانکپن بخش دیا جس سے اردو کا جھومر اہلِ دنیا کے لیے ناقابل فراموش ہو گیا۔
بہت بڑے بڑے ناموں کو خراجِ تحسین پیش کرنے سے پہلے ان گمنا م ناموں کے نام کے چراغِ عقیدت روشن کر لیا جائے جن کے وجود نے اردو کو اردو ہونے کا احساس بخشا۔ امیر خسرو وہ قادرالکلام اور نابغہ روزگار شخص ہے جسے بجا طور پر اردو ادب کی پہچان اور پیشرو قرار دیا جا سکتا ہے۔ امیر خسرو سے قبل آپ کو پورے کرّہ ارض پر اردو شاعری کے شرارے دکھائی نہ دیں گے۔ امیر خسرو کے زمانے کے کوئی لگ بھگ 200 سال کے بعد 1498 میں جودھ پور میں میرا بائی پیدا ہوئی۔ میرا بائی نے 1540 کے لگ بھگ اس دور کی ہندوی (آج کی اردو زبان) میں شاعری کی اور چار دیوان تخلیق کیے۔ ان کی شاعری نسائیت کی نمائندہ رومانویت پسند شاعری ہے جو آج سے پانچ صدیاں قبل کہی گئی اور اپنی تخلیق میں ایک معجزہ ہی معلوم ہوتا ہے۔
سولہویں صدی میں اردو شاعری اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوتی ہے کہ اردو کو اپنا پہلا صاحبِ کلیّات شاعر مل جاتا ہے۔ یہ جنوبی ہند کے شہنشاہ محمد قلی قطب شاہ ہیں جنہوں نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی میں بھی شاعری کی۔ تیلگو ریاست گولکنڈہ میں 1545 میں پیدا ہونے اس عظیم الشان شاعر کے ہمعصر کچھ اور نام بھی ہیں جنہوں اردو کی اس دور میں خدمت کی جب کوئی چوتھا نام شاعر کی حیثیت سے سامنے موجود نہ تھا۔ شاہ علی محمد جیوگام دھنی، شاہ برہان الدین جانم اور غلام مصطفی احمد آبادی وہ چند ایک نام ہیں جنہوں کچھ مثنویاں تحریر کیں۔
سترہویں صدی کے ساتھ ہی دامنِ اردو رنگیں قبا پہن کر فلک پر اتراتی پھرتی ہے کہ اس کو ولی دکنی جیسا عظیم الشان شاعر میسر آ جاتا ہے۔ دکنی اگرچہ کہ چالیس سال ہی زندہ رہا، مگر اس دوران وہ جو کچھ کر گیا، آج بھی اس کی نظیر ڈھونڈ لانا ممکن نہیں ہے۔ ولی دکنی بلاشبہ اردو شاعری کا باوا آدم ہے۔ ولی دکنی کے علاوہ اس عہد کے شاعری کے اور چند نام آبرو شاہ مبارک، ولی عزلت، مرزا مظہر جانِ جاناں، حاتم شاہ اور سید بلاقی ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو عہدِ عالمگیری تک اردو زبان کو سہل کرنے اور مقبول بنانے کے لیے جان مارتے رہے۔
اس دور کا اور نابغہ روزگار نام سراج اورنگ آبادی ہے۔ سراج کی غزل ساڑھے تین سو سال گزرنے کے باوجود مقبول ہے جو اس کے قادرالکلام ہونے کی سند ہے۔ رہ گئے میر تقی میر، رفیع سودا، خواجہ میر درد، غالب، اقبال، فیض، احمد فراز، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی،ابراہیم ذوق، داغ دہلوی، ابن انشاء ، ن م راشد، میرا جی، مومن خان مومن، پروین شاکر، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، ساحر لدھیانوی، ناصر کاظمی و محسن نقوی تو یہ وہ دمکتے ستارے ہیں جن کی بدولت اردو شاعری کی کہکشاں روشن ہے۔
شاعری کے عالمی دن کے موقع پر اردو شاعری کی نمائندگی کے لیے میں اٹھارہویں صدی کے درویش شاعر سراج اورنگ آبادی کی غزل پیش کروں گا کہ اندازہ لگائیے اور سر دھنئیے کہ یہ اردو کے اس دور کا کلام ہے جب اردو شاعری ابھی پالنے میں تھی……
خبر تحیر عشق! س?ن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
شہہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی
وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخہ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی