تھرڈ آپشن سے بچنے کیلئے سیاسی قیادتوں کی بصیرت کا امتحان 


پاکستان الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے التواء کے بعد جہاں ملک میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام بڑھنے کا اندیشہ لاحق ہو چکا ہے‘ وہیں سنگین آئینی بحران اور ادارہ جاتی ٹکرائو کے آثار پیدا ہوتے بھی نظر آرہے ہیں۔ یہ صورتحال ہماری قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کیلئے بہرصورت لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ ملک میں پیدا ہونیوالے ان حالات سے پورا سسٹم بھی دائو پر لگ سکتا ہے اور ملک کی سلامتی کے درپے ہمارے سفاک و مکار دشمن بھارت کو بھی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا موقع مل سکتا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے نشوونما پانے والے سیاسی انتشار کا نقصان ہمیں پہلے ہی ملکی معیشت کے کمزور ہونے کی صورت میں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں اپنی ناروا شرائط کے ساتھ مزید جکڑنے کی کوششوں میں ہے اور ہمارے ایٹمی پروگرام کے بدخواہ عناصر بھی ہماری اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے صف بندی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس لئے آج ہمیں قومی سیاست میں ذاتی سیاسی مفادات اور اپنی اپنی انائوں سے ہٹ کر قومی اتحاد و یکجہتی کی جانب توجہ دینا ہوگی۔ اس کیلئے بہرصورت تمام قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کو ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی مفادات کے تناظر میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ 
اس حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف نے گزشتہ روز یوم پاکستان کے موقع پر اپنے ٹویٹر پیغام میں خود احتسابی اور اتحاد و یکجہتی پر زور دیا اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے ازالہ کیلئے تمام قومی سیاسی قیادتوں سے آگے بڑھنے کا تقاضا کیا اور وفاقی وزراء رانا ثناء اللہ‘ مریم اورنگزیب اور اعظم نذیر تارڑ نے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے سیاسی ڈائیلاگ پر آمادگی کا اظہار کیا اور کہا کہ جمہوری نظام کو چلنے دیں اور تیسرے آپشن کیلئے حالات سازگار نہ بنائیں۔ اسکے برعکس عمران خان کی زیرصدارت زمان پارک لاہور میں منعقدہ پی ٹی آئی کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے التواء سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے وکیل سید علی ظفر نے جمعۃ المبارک کے روز عدالت عظمیٰ میں آئینی درخواست دائر بھی کر دی۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پارلیمنٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کی خواہش کا اظہار ہوتے ہی الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کر دیئے۔ یہ آئینی اور قانونی فیصلہ نہیں۔ الیکشن کمیشن نے آئین کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے مینار پاکستان لاہور میں منعقد ہونیوالے پی ٹی آئی کے جلسے میں سپریم کورٹ کے ساتھ اظہار یکجہتی کا بھی خصوصی اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس سے بادی النظر میں یہی تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے پی ٹی آئی سپریم کورٹ اور حکمران اتحادی جماعتیں الیکشن کمیشن پر تکیہ کئے بیٹھی ہیں جس سے ان ریاستی اداروں کے متنازعہ بننے کا بھی امکان ہے اور انہیں ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کی سوچ کے تحت ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کے تصور پر بھی زد پڑ سکتی ہے۔ 
آئین پاکستان میں تو ریاستی انتظامی اداروں کے اختیارات اور انکی حدود و قیود متعین ہیں۔ اگر تمام ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر فرائض منصبی ادا کریں تو سسٹم کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ادارہ جاتی ٹکرائو کی کوئی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ماضی بھی اس معاملہ میں بری مثالیں قائم کر چکا ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین اپنی اپنی مفاداتی سیاست اور اقتدار میں شیرینی حاصل کرنے کیلئے ماورائے آئین اقدام کی راہ ہموار کرتے اور اس کیلئے جرنیلی آمروں کو اپنے کندھے پیش کرتے رہے جبکہ ہماری عدلیہ نے نظریۂ ضرورت ایجاد کرکے ماورائے آئین اقدامات کو آئینی اور عدالتی تحفظ دینے کے راستے نکالے۔ چنانچہ اس وطن عزیز کے تقریباً 35 سال جرنیلی آمریتوں کی نذر ہو گئے اور بدقسمتی سے ہماری قومی سیاسی قیادتوں نے ابھی تک اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ اسکے باوجود کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کے بعد باہم دست و گریباں انہی سیاسی قیادتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر بحالی ٔ جمہوریت کی طویل اور انتہائی کٹھن جدوجہد بھی کرنا پڑی ہے‘ پھر بھی وہ جمہوری نظام کو ایک دوسرے کو قبول اور برداشت کرنے کے روادار نہیں اور آج بھی وہ اپنی اپنی مفاداتی سیاست کے اسیر ہو کر ماضی جیسے ماورائے آئین اقدام کے راستے نکالتے نظر آرہے ہیں۔ اس میں یقیناً پی ٹی آئی اور اسکے قائد عمران خان کی جارحانہ اور ریاستی اداروں اور انکی قیادتوں کو رگیدنے والی سیاست کا زیادہ عمل دخل ہے جو حصول اقتدار اور پھر اپنے اقتدار کی طوالت و استحکام کیلئے تمام ریاستی اداروں بالخصوص عدلیہ اور افواج پاکستان کی مکمل معاونت حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں اور جب کبھی انہیں اپنی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی تو لٹھ لے کر متعلقہ ادارے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ انکے اس طرز سیاست سے ہی ملک میں محاذآرائی اور سیاسی عدم استحکام کی فضا پیدا ہوئی اور انکے ’’عتاب‘‘ کی زد میں آنیوالی ادارہ جاتی قیادتوں کو بھی اپنی عزت و آبرو اور ادارے کی توقیر کو محفوظ کرنے کی فکرلاحق ہوئی۔ عمران خان اپنے مخالف سیاست دانوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے دروازے پہلے ہی بند کرچکے ہیں اور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انکے بیانیوں کی عوام میں پذیرائی اور اسکے نتیجہ میں عوام میں بڑھتی ہوئی اپنی مقبولیت کے زور پر وہ پورے سسٹم کو اپنی من مرضی کے مطابق چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 
عمران خان کی اسی سوچ نے درحقیقت ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کے تصور کو پنپنے نہیں دیا اور ہر کسی کو اپنے مقاصد کیلئے آئین و قانون کو موم کی ناک بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ بے شک آئین کا تقاضا تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا ہے تاہم ملک میں ایسے ناگزیر حالات پیدا ہو جائیں جن کے باعث 90 روز کے اندر انتخابات کا آئینی تقاضا پورا کرنا ممکن نہ رہے تو اسی آئین کے تحت کوئی متبادل راستہ نکالا جا سکتا ہے جس کیلئے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے۔ اس تناظر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور سکیورٹی و انتظامی اداروں کی جانب سے ملکی معیشت و سلامتی کو لاحق جن خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے‘ اسکی بنیاد پر آئین کی متعلقہ دفعات میں ترامیم کرکے انتخابات کے 90 دن کے اندر لازمی انعقاد کی پابندی ختم کی جا سکتی ہے۔ اس کیلئے یقیناً قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس کے ذریعے عام انتخابات کے ایک ہی دن انعقاد پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اگر مفاداتی سیاست میں آئینی ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کی کوشش کی گئی تو سسٹم کو تاراج کرنیوانے والے تھرڈ آپشن کے راستے ہی کھلیں گے۔ یہی آج ہماری قومی سیاسی قیادتوں کی بصیرت کا امتحان ہے۔ وہ افہام و تفہیم سے کام لیں گے تو سسٹم کے ثمرات سے مستفید ہوتے رہیں گے بصورت دیگر انہیں بحالی ٔجمہوریت کی ماضی جیسی کٹھن اور قربانیوں سے لبریز تحریک کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ 

ای پیپر دی نیشن