جنرل ایوب خاں سے لے کر جنرل ضیاء الحق تک جالب کی جدوجہدکی داستان ایک نہیں کئی داستانیںہیں۔ان کہانیوں میں دارورسن کے نوحے بھی ہیں اور شعروسخن کے زمزے بھی۔قید وتنہائی کاسناٹا بھی ہے اورزورقلم کافراٹا بھی ۔عوامی حقوق کی باتیں بھی ہیں اورجرنیلوں کی گھاتیں بھی ۔پچھلے پہر کی یادیں بھی اوردیدہ ودل کی فریادیں بھی ۔غرض زلف وزنجیر کے رشتے اورزخم ومراہم کے ناطے جالب کی داستاں کے بین السطورکی آبروہیں۔ پھول کی پتی اورہیرے کے جگر کاآمیختہ ،اس کی مترنم شاعری سے سہ آتشہ ہوجاتا تھا۔جالب نے اپنے گریبان کے چاک سے آزادی کاپھریرابنایا اور آخری سانس تک اسے لہراتا رہا۔اس کی آواز کبھی شہنائی بنی ،توکبھی تلوار ۔اس نے جنرل ایوب خان سے ایک طویل جنگ ،ایک کامیاب جنگ لڑی ۔اس جنگ کے ایک معرکہ میں مال روڈ پر ہائی کورٹ کی عمارت کے نزدیک گنگارام مینشن کے سامنے جہاں شیخ فضل دین کی دوائیوں کی دکان ہے وہاں سے ایک احتجاجی جلوس کا وہ واقعہ بھی پیش آیاجب یہ جلوس پنجاب اسمبلی تک جاناچاہتا تھا۔بتانے والوں نے بتایا کہ ایک لاکھ سے کم افرادنہ ہوں گے ۔ہجوم کسی طورقابو نہیں آرہا تھا۔پہلے فائر بریگیڈ کی گاڑیوں سے تیز پانی کی دھاریں چھوڑیں گئیں،پھر لاٹھی چارج ہوا،ہجوم ٹس سے مس نہ ہوا۔پھر گولی چلائی گئی مگر خلقت شہر تو جیسے مرنے کے بہانے مانگے۔ آخری چارہ کارکے طورپر ایک فوجی آفیسرنے مال روڈپر ریڈ ٹیپ بچھا دی۔اعلان ہوا کہ جوکوئی بھی اس سرخ لکیرکوپارکرے گا اسے گولی ماردی جائے گی۔سب خاموش ہوگئے۔انفرادی طورپر کوئی بھی گولی کھانے کیلئے تیار نہیں ہوتا،یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔اندیشہ تھا کہ اگر آج جلوس اسمبلی ہال تک نہ پہنچ سکا تو ایوب خان سے کبھی نجات ممکن نہ ہوگی۔اس سے پہلے کہ لوگوں کے حوصلے دم توڑ دیتے۔حبیب جالب اور ملک حامد سرفراز نے بانہوں میں بانہیں ڈالیں ،جمہوریت کے ان متوالوں نے "جمہوریت زندہ باد"کانعرہ بلند کیا اورسرخ فیتے کو پارکرکے فوجی گاڑی تک جاپہنچے ۔سیہماہوا ہجوم بھی ٹوٹ پڑا۔ حبیب جالب آخری سانس تک نوابی ،جاگیرداری ، آمریت ،مذہبی پیشوائیت اورغربت کے خلا ف عوام کی جنگ لڑتا رہا۔ہر جگہ اورہر لمحہ انسانی عزو ،شرف کے لئے نبردآزما رہا۔بے پناہ جگر دار آدمی تھا۔وہ آگ کے دیوتاکی مانند زندگی بھر لوگوں کو روشنی دکھاتا رہا اوربادشاہوں کے حکم سے روزانہ ایک عقاب آتا اس اورکاسینہ اپنی تیزنوکدارچونچ سے نوچتا مگر وہ جانتا تھا کہ جگر ہوگا تو عقاب بھی آئے گا۔زخم کھاتا بیڑیاں کھٹکھٹاتا رہا۔ایک جیل سے دوسری جیل ،ایک شہر سے دوسرے شہر کوچہ کوچہ گلی گلی روشنی پھیلاتا ،ریاستی تشدد سہتا رہا۔آمریت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں للکارتارہا جیسے 1962ء کے آئین کوللکارا۔
ایسے دستورکو ،صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
حبیب جالب نے مادرملت سے لے کربے نظیر بھٹو تک ملک پر مسلط آئین شکن طالع آزماجرنیلوں کا مقابلہ کیا۔مادرملت کی جمہوری جدوجہد نے ثابت کیا کہ عورت مردسے کسی بھی سیاسی جدوجہد میں کم نہیں اوریہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ جنرل ایوب خاںن اور جنرل ضیاء الحق کوللکارنے والی قیادت عورتوںہی کی تھی۔جالب مادرملت کی جدوجہد کا ایسا عنصر تھاجس نے پاکستان میں جمہوری قدروں کی حرمت کے لئے شعور پیداکیا۔اس کا شمار سیاسی شعورکے اولیں بانیوں میں ہوتا ہے۔جالب نے موچی دروازہ لاہور میں دولاکھ انسانوں کے ہجوم میں مادرملت کی صدارت میں ہونے والے احتجاجی جلسہ میں اپنی شہرہ آفاق نظم پڑھی
اس ظلم سے باز آئو،بیرک میں چلے جائو
کیوں چند لیٹروں کی پھرتے ہولئے ٹولی
ماںدیکھ کے یہ بولی
۔ہرآنکھ پرنم ہوگئی ،ہرجذبہ جوان ہوگیا،اتنے بڑے ہجوم میں ایساسناٹا پھر کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔اسکے بعد بے نظیر بھٹو کے حوالے سے ضیاء الحق کو بے توقیر کیا۔
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
بلوانوں کے پڑے ہیں پالے ایک نہتی لڑکی سے
حبیب جالب فکری اور عملی طورپر اس قافلہ ، فکروفنکا ایک فرد تھا جس نے ہر عہد میں حق گوئی کی قیمت اپنی آزادی اور جسم وجاں کی قربانی کی شکل میں دی ۔یہ قافلہ،نیم جاں کبھی حسین کبھی ابوحنیفہ، کبھی امام مالک ،کبھی احمد بن حنبل ،کبھی ظفر علی خان ، کبھی حسرت موہانی ،کبھی چی گویرا توکبھی پابلونر ودا،کبھی قاضی نذرالسلام تو کبھی ناظم حکمت،کبھی محمود درویش توکبھی مایا کوفسکی ایسے مزاحمتی کرداروں کے دم قدم سے رواں دواں ہے اور آئین خداوندی کے تحت قیامت تک رہے گا۔اسے فنا نہیں کہ سچ کو فنا نہیں ۔اپنے دور میں جالب نے خون جگر سے لفظوں کے دیئے جلائے اورخوف وآمریت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں لوگوں کوروشنی دی ۔پاکستان میں فوجی راج کے آغاز پر اسکے خلاف سب سے مضبوط اورتواناآواز حبیب جالب ہی کی تھی ۔پورے برصغیر میں آج تک کسی بھی شاعر کو اتنے سامعین میسر نہیں آئے ،جتنے جالب کو۔اس کی ہر سانس تلوار کی دھار تھی۔اس کاترنم بڑاشاداب تھا۔حرف حرف میں ڈھلتا چلاجاتا تھا۔جالب اس کہکشاں کاایک ستارہ تھا ۔ایک ایسی کہکشاں جوہمارے کرو ارض کی سیاہ راتوں کومنور کرتی ہے۔
پس تحریر:۔یہ مضمون 2005میں پہلی بارروزنامہ نوائے وقت لاہور کے سنڈے میگزین میںمیرے ایک طویل مضمون "جیل کے دن ۔جیل کی راتیں" کے ایک قصے کے طورپرشائع ہوا۔گذشتہ دنوں ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے زیر اہتمام منائے گئے "یوم حبیب جالب"کے موقع پر بھی اسکے کچھ اقتباسات نذرحاضرین کئے گئے۔اس موقع پر مہمان خصوصی ،حبیب جالب کی بیٹی طاہرہ حبیب جالب نے ان کاکلام ویسے ہی ترنم میںپیش کرکے بھرپور دادسمیٹی۔
حبیب جالبi
Mar 25, 2023