کیا سارے مسائل کی جڑ عمران خان ہے۔؟


بڑی خبر یہ ہے کہ آئین و عدالت عظمی کے حکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کردیے ہیں،عذر یہ ہے کہ خراب معاشی وسیکورٹی کی صورتحال پر 30اپریل کو ہونے والے انتخابات اب 8اکتوبرکو ہونگے۔ اس سے قبل ازخود نوٹس میں چیف جسٹس آف پاکستان یہ کہہ چکے ہیں کہ شفاف الیکشن میں اگر کوئی رکاوٹ ڈالی گئی تو مداخلت کرینگے۔یقینی طور پر اتحادی حکومت نے طے شدہ انتخابات کی تاریخ میں مداخلت کردی ہے کیونکہ یہ لوگ جان چکے ہیں کہ عمران خان کے ہوتے ہوئے ہم ملک بھرمیں کہیں سے بھی جیتنے کے قابل نہیں ہیں۔جس کی بنیادی وجہ ماضی کی لوٹ مار ہی نہیں بلکہ موجودہ ماحول میں جاری سیاسی و معاشی صورتحال نے پاکستان اور اس کی عوام کو شدید کرب میں مبتلا کررکھاہے۔ ابھی دو روز قبل ہی حکومت نے اتحادی جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کیا جس میں دکھائی یہ دیا کہ حکومت مہنگائی کے خاتمے کے لیے رمضان شریف میں عوام کے لیے کوئی اچھا فیصلہ کرنے جارہی ہے مگرمہنگائی اور دیگر بحرانوں پر چھ گھنٹے کے طویل اجلاس کی کہانی بس اتنی سی ہے کہ اتحادیوں کی گفتگو عمران خان سے شروع عمران پرختم یعنی اعلامیے کے مطابق ساری تباہی عمران خان کی وجہ سے ہے اور اسے نااہل کروائے بغیر ملک میں خوشحالی کا ہونا ناممکن بات ہوگی۔جبکہ قوم دیکھ رہی ہے کہ ملک میں اس وقت تیرہ جماعتوں کی حکومت ہے اورساری تباہی کا الزام اس شخص پر ہے جو اس وقت اقتدار سے باہر ہے حتی کہ لوگ آٹے کی لائنوں میں لگے روزانہ کی بنیاد پرمررہے ہیں،لیکن وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کا سیاسی اور قومی امور پر 6 گھنٹے طویل اجلاس میں ہر چیز کا ملبہ عمران خان پر ڈال دیا گیا۔یعنی اس ملک میں ہر قسم کی افراتفری مہنگائی بے روزگاری اور بدامنی کازمہ دار ایک ہی شخص ہے اور وہ ہے عمران خان۔ اجلاس میں موجود تیرہ جماعتوں کے حکومتی اتحادی جماعتوں کے اکابرین، سینئر رہنما اور وفاقی وزرا شریک ہوئے ہر ایک یہ ہی چاہتاتھا الیکشن سے قبل عمران خان کو پھانسی پر چڑجادیا جائے ورنہ بھول جائیں کہ لوگ ہمیں ووٹ دیدیں۔ اس دوران دوسری جانب عمران خان عدالت میں پیش تھا جو اعلی عدلیہ سے درخواست کررہاتھا کہ مہربانی کرکے مجھ پرچھ مقدمے اور بنادیں تاکہ سینچری مکمل ہوجائے۔موجودہ 
حکومت کو ملک پر اپنے تسلط کو جاری رکھنے کے لیے عمران خان کو راستے سے ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔افسوس ہے کہ پاکستان میں جاری بحران درحقیقت اقتدار کی بھوک کا بحران ہے جو محنت کش عوام کو آج بھوک اور بیماری کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔پاکستان کے عوام اس وقت ایک جانب اگر غربت، مہنگائی اور بے روز گاری کی چکی میں پس رہے ہیں، دو وقت کی روٹی بچوں کو فراہم کرنے میں ناکام رہنے والے غریب، بے بس اور لاچار آدمی کو بچوں سمیت خود کشی کے سوا کوئی راستہ سجھائی نہیں 
دے رہا اور اس کی مثالیں آئے روز سامنے آ رہی ہیں مگر سیاستدان اس سے قطعی لاتعلق اور بے پروا ہو کر باہم کشیدگی کو ہوا دینے اور ایک دوسرے پر الفاظ کی گولہ باری میں مصروف ہیں، ان کی سیاسی عداوت اب ذاتی دشمنی کا روپ دھارچکی ہے سیاسی قوتوں کی یہ چپقلش اور محاذ آرائی مسائل اور مصائب میں گھرے عام آدمی کے لیے جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔لیکن وقت بہت بدل چکاہے پاکستان کے اندر کھیلے جانے والے کھیل نے حکمران طبقے کو جس طرح بے نقاب کیا ہے ایساکبھی نہیں ہوا۔ حکمران اقتدار سے باہر ایک شخص پر جتنا چاہے الزام لگادیں مگرلوگ اس بات پر اب بلکل بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کہتا ہے کہ میں نے کبھی پاکستان کا قانون نہیں توڑا، کبھی میرا نام میچ فکسنگ میں نہیں آیا، اور ان لوگوں نے میرے اوپر 96 کیسز کردیئے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھ پر دہشتگردی، قتل، توہین مذہب اور غداری کے کیسز بنائے گئے، میں جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہوں کیس درج ہوجاتا ہے، مجھے راستے سے ہٹانے کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کررہے ہیں۔ہم اگر تمام معاملات کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آخر اس ملک کی ڈیڈھ درجن جماعتوں کے سینوں میں اس قدر بغض عمران کیوں بھرا پڑاہے، لیکن عوام کے خیالات اس کے برعکس ہیں ناجانے کیوں چند مٹھی بھر لوگوں کو ایک طرف رکھ کرسوچکیں تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملے گا کہ اس ملک کے لاکھوں لوگ عمران خان کے ایک اشارے پر جان دینے کو تیار ہیں اور عمران خان کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں تو پھر حکومتی اجلاس کے اعلامیئے کے مطابق عمران خان ہی قصور وار کیوں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کا قصور یہ ہے کہ لوگ اس کا اعتبار کرتے ہیں۔ صرف اس ملک کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود اوورسیز پاکستانی عمران خان کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں،بزنس مین حضرات کا کہنا ہے کہ ملک معاشی اعتبار سے عمران خان کے دور میں تیزی سے ترقی کررہاہے دنیا پاکستان اس رفتار کی تعریف کررہی تھی اور جب عمران خان انٹرنیشنل فورم پر گیا تو اس نے سب ممالک کو یہ واضح کر دیا کہ ہم ایک اللہ کے سامنے سر جھکاتے ہیں اور کسی کے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔او آئی سی جو مسلمان ممالک کا ایک انٹرنیشل پلیٹ فارم ہے اس میں جان ڈالنے میں بھی خان کا اہم کردار ہے جس کی بدولت یو این او کو اسلام فوبیا پر قرارداد منظور کرنا پڑی۔ او آئی سی کے تحت خان نے اسلام، مسلمان اور خاتم الانبیا حضرت محمد ﷺ کا جو بول بالا کیا اس کی مثال موجودہ دور میں کسی اسلامی ملک میں نہیں ملتی، یہی وجہ تمام اسلامی دنیا خان کو اپنا لیڈر مان رہی ہے۔ اس کے برعکس موجودہ حکومت نے عوام کو زلیل خوار کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ لوگ ایک آٹے کی بوری کے حصول میں جان سے جارہے ہیں مگر اس کا بھی سارا قصور عمران خان پر ہی لگایا جارہاہے، لوگوں کو دھکم پیل سے مرتا دیکھ کر یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ کیا ضروری ہے کہ سستا آٹا فراہم کرنے کے لئے اس قسم کے ڈرامے کیے جائیں عوام کو اکھٹا کیا جائے پھر انہیں زلیل کیاجائے پھر ان کی خود داری کا جنازہ نکال کر انہیں ایک ایک تھیلے کے لئے ترسایا جائے۔افسوس کہ آج اس ملک میں غریب کی کمر ٹوٹ چکی ہے،مگر اس کا ذمہ دار بھی عمران خان ہے سستا آٹا لینے کے لیے مائیں بہنیں بھی ذلیل خوار ہو رہی ہیں یہ سب کچھ بھی عمران خان کی وجہ سے ہی ہے،کیا یہ حکمران بھول رہے ہیں جنرل ایوب کے مارشل لا کے وقت جب آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوا اور کوئی عوامی تحریک نہ ابھری تو حبیب جالب نے لکھا کہ بیس روپے من آٹا۔۔ اس پر بھی ہے سناٹا۔پھر کیاہوا۔۔۔ کچھ ہی عرصے بعد جالب کا یہ گلہ دور ہو چکا تھا کیونکہ یہاں کے محنت کشوں نے اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی انقلابی تحریک برپا کی جس نے نہ صرف ایوب خان کی آمریت کا خاتمہ کیا بلکہ سوشلزم کے نعروں کے ساتھ یہاں موجود سرمایہ دارانہ نظام کو بھی چیلنج کیا۔ کیا ممکن ہے کہ یہ دور پھر سے دہرایا جائے۔؟۔کیونکہ ملک میں جاری بحرانوں کا ذمہ دار عمران خان ہے‘ یہ حکومت سمجھتی ہے مگر۔۔۔ عوام نہیں۔۔

ای پیپر دی نیشن