خاتون جنت فاطمۃ الزہرہ


 علامہ منیر احمد یوسفی 
حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہ  
حضور نبی کریم ؐکی چار دخترانِ ذیشان ہیں جو سبھی کی سبھی خاتون اوّل اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓکے بطنِ پاک سے  ہیں۔ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہ ؓرسولِ کریمؐکی پاک بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹی شہزادی ہیں۔آپ کا اِسم مبارک ’’فاطمہ  ؓ‘‘ ہے۔ آپ کا لقب بتول اور زہرا ہے۔ بتول کا معنی ہے منقطع ہونا‘ کٹ جانا چونکہ آپ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیا سے اَلگ تھیں۔ لہٰذا بتول لقب ہوا۔ زہرا بمعنی کلی آپ جنت کی کلی تھیں۔ ان سے جنت کی خوشبو آتی تھی۔ حضور نبی کریمؐ سونگھا کرتے تھے۔ اِس لئے آپ کا لقب زہرا ہوا۔
قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۹ میں وضاحت فرمائی ہے ’’اے نبی کریم آپؐ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے فرما دیں‘‘۔ قرآنِ مجید کے اِرشادِ عظیم کے مطابق اَیسی لڑکی جو بیوہ عورت کے پہلے شوہر سے ہواور وہ عورت کسی دوسرے شخص سے شادی کرے تو بیوہ عورت کی پہلے شوہر سے لڑکی دوسرے شوہر کی بیٹی نہیں کہلاتی بلکہ  ربیبہکہلاتی ہے۔ جیسا کہ سورۃ النسآء کی آیتِ مقدسہ نمبر ۲۳ میں فرمایا گیا ہے جسے سوتیلی بیٹی کہہ سکتے ہیں۔
مختلف روایات کے مطابق آپ اِعلانِ نبوت سے ایک سال یا پانچ سال پہلے پیدا ہوئیں۔ مسور بن مخرمہ سے روایت ہے‘ رسولِ کریمؐ ؐنے فرمایا:’’فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اِنہیں ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا ، ایک اور روایت ہے جو چیز اِنہیں پریشان کرے مجھے پریشان کرتی ہے اور جو اِنہیں تکلیف دے وہ مجھے ستاتا ہے‘‘۔ 
سیّدہ جناب ابھی بچی ہی تھیں نبی اللہ ؐ ایک روز کعبۃ اللہ میں نماز پڑھنے تشریف لے گئے وہاں کفّار مشرکین تاک میں تھے۔ جب رسول اللہؐ سجدہ میں گئے تو عقبہ بن معیط نے اُنٹ کی اَوجڑی آپ ؐکی پشت مبارک پر لا رکھی۔ نبی اللہ  ؐاُسی طرح سجدہ میں تھے کہ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزھرہ ہاں پہنچیں اور اُنہوں نے آپؐ کی پشت  سے اوجڑی گرائی اور عقبہ بن معیط کو بددُعا دی۔
 سیّدہ فاطمہ نے غزوۂ اُحد میںحصّہ لیا۔ مدینہ منورہ میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ نبی اللہ ؐشہید ہوگئے ہیں۔ سیّدہ میدان جنگ میں پہنچیں اُس وقت حضور  ؐغار سے باہر تشریف لے آئے تھے۔ جناب سیّدہؓ نے زخم دھویا اور جب دیکھا کہ خون نہیں تھمتا تو کھجور کی صف کو جلا کر اُس کی راکھ زخم پر رکھی، خون بند ہوگیا۔
حضرت عمران بن حصینب سے روایت ہے‘ ایک بار حضرت سیّدہ فاطمہؓ بیمار ہوئیں۔ نبی اللہ  ؐنے پوچھا پیاری بیٹی کیا حال ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا مجھے بہت تکلیف ہے اور ہمارے ہاں کھانے کیلئے کوئی چیز بھی نہیں۔ یہ صبر و اِستقامت اور توکل تھا جو  ہمارے لئے ایک عمدہ مثال ہے۔ نبی اللہؐ نے فرمایا: اے میری پیاری بیٹی! تم اِس پر خوش نہیں ہو کہ تم نساء العالمین کی سیّدہ ہو۔ حضرت سیّدہ فاطمہؓنے عرض کیا‘ یا رسول اللہؐ بی بی مریم کدھر گئیں؟ فرمایا: وہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں اور تم تمام زمانوں کی عورتوں کی سردار ہو اور تمہارے شوہر دنیا اور آخرت میں سیّد ہے۔ (حلیۃ الاولیاء جلد ۲ س ۵۹)
نبی کریمؐ کو اپنے اہل میں حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہؓ سب سے پیاری تھیں۔ جب سفر پر تشریف لے جایا کرتے تھے تو آخیر میں حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہ ؓ سے مل کر جاتے تھے۔ جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہؓ سے ملتے۔حضرت جمیع بن عمیر سے روایت ہے‘  میں اپنی پھوپھی کے ساتھ اُم المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہؓ کے پاس گیا ‘میں نے پوچھا:کون شخص نبی کریم ؐکو بہت پیارا تھا؟ آپ نے فرمایا: فاطمہؓ پھر عرض کیا گیا کہ مردوں میں فرمایا اُن کے خاوند مولاعلیؓ۔ 
اُم المؤمنین حضرت عائشہ ؐفرماتی ہیں: عادات ،گفتار،اخلاق اور نشست و برخاست میںحضرت فاطمہؓ سے بڑھ کر کوئی بھی رسول اللہؐ کا مشابہ نہ تھا۔ وہ جب نبی اللہ  ؐکے پاس آیا کرتیں تو نبی  ؐ آگے بڑھتے پیشانی پر بوسہ دیتے، مرحبا فرمایا کرتے اور جب رسول اللہ ؐبیٹی سے ملنے جاتے وہ بھی اِسی طرح ملا کرتی تھیں۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے: میں نے حضرت فاطمہؓ سے بڑھ کر کسی کو سچ بولنے والا نہ دیکھا۔ ہاں وہی ایسا ہوسکتا ہے جو نبی ؐ کا جایا ہو۔
سیّدہ فاطمہؓکا وصال شریف نبی اللہ ؐکے وصال  کے چھ ماہ بعد ۳ رمضان المبارک   ۱۱ھ؁ میں ہوا۔ حضرت  علیؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جنت البقیع میں رات کے وقت دفن ہوئیں حضرت علی نے قبر میں اُتارا۔ سیّدہ فاطمۃ الزہرہ ؓکے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ سیّدنا امام حسن اور سیّدنا امام حسین ؓجنت کے جوانوں کے سردار ہیں  سیّدہ ام کلثوم ؓ  اور حضرت سیّدہ زینب سیّدنا محسن اور سیّدہ رقیہ بچپن میں اِنتقال کر گئے۔

ای پیپر دی نیشن