بابا کرموں کا افطاردسترخوان اور دانشمندانہ خیالات  


ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ 
takhan_column@hotmail.com 

بابا کرموں اپنے گھر میں ہفتہ کی شام کو گپ شپ کا  اوپن سیشن رکھتے ہیں جس میں نوجوان ، بوڑھے اور عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ مجھے بھی دعوت تھی۔ میں بھی شریک ہوا۔تمام  مہمان چٹائی پر براجمان تھے۔ بابا کرموں خود لکڑی کی پیڑی پر بیٹھ کر عام فہم باتیں کرتے رہے ۔ یہ گھر کا صحن کلاس روم کا منظر پیش کررہا تھا  جس کے کونے میں مٹکا اور مٹی کا پیالہ پڑا تھا۔ سب سے پوچھا اپنے ملک کا نام بتاؤ۔ سبھی نے کہا پاکستان!! پھر خود ہی کہا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ پھر پوچھا اسلامی جمہوریہ کیوں رکھا گیا؟ پھر خاموشی…!بتایا کہ اس لئے کہ یہاں مسلمان بستے ہیں ۔ جمہوریہ اس لیے کہ جمہور کی آواز کی اہمیت ہو گی۔ جمہوری طریقے سے نظام چلے گا پھر پوچھا کیا اس ملک میں اسلام اور جمہوریت ہے؟ اس پر بھی سب چپ رہے۔ خود ہی کہا نہ یہ اسلامی ہے اور نہ ہی یہ جمیوری ۔یہ صرف پاکستان ہے ۔ اسے ہم نے  اسلامی ملک بنانے کی کوشش نہیں کی اس لیے کہ ہم اسلام سے خود ناواقف ہیں اور نہ ہی اسے جمہوری طریقے سے چلا سکے اس لئے ہمیں جمہوریت پہ یقین نہیں ہے۔ جو کرتوت ہمارے  ہیں وہ تو مسلمانوں کے نہیں ہوتے۔جس طرح سے الیکشن یہاں ہوتے ہیں یہ جمہوری طریقہ سے تو نہیں ہوتے۔ آئین اور قانون کی پاسداری ہم نہیں کرتے۔پاکستان کی قومی زبان اردو ہے مگر اسے نافذ نہیں کرتے۔ حلف اردو کے بجائے انگریزی میں لیتے ہیں جب کہ آئین میں ہماری قومی زبان اردو ہے۔سپریم کورٹ  اپنا فیصلہ دے چکی ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے مگر نہ خود اداروں  نے اس  پر عمل کیا اور نہ ہی چیف جسٹس صاحبان نے اس پر عمل کرنا گوارہ کیا۔  یہی حال ہم مسلمانوں کا ہے۔ رمضان میں ہمارا زور عبادات اور افطاریوں پر ہوتا ہے۔ ہم رمضان کا استقبال مہنگائی سے کرتے ہیں۔ مختلف پکوانوں سے کرتے ہیں جو سودا عام دنوں میں نہیں بکتا اسے رمضان پیکج کا نام دے کرفروخت کرتے ہیں۔ ذخیرہ کرتے ہیں پھر منافع کماتے ہیں پھر عمرے پہ چلے جاتے ہیں۔ نہ یہ کسی غریب رشتے دار دوست محلے دار کی فکر اور پرواہ کرتے ہیں۔ یہ اگر کرتے ہیں تو عمرہ حج عبادات کرتے ہیں یا اپنے جیسے انسانوں کو تنگ کرتے ہیں۔ ایسا کر کے شیطان کا ہاتھ بٹھاتے ہیں، پیسے بناتے ہیں۔ کاش یہ لوگ جتنا کام جہنم میں جانے کی کوشش میں کرتے ہیں  تھوڑا یہ جنت میں جانے کا بھی کر لیا کریں تو کیا بات ہے۔ اکثر ہم جنم میں جانے کے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ روزے دکھاوے کے نہیں احساس دلانے کے لئے ہیں اور ہم افطاری میں وہ کچھ کھاتے ہیں جو سارا سال نہیں کھاتے۔ غریب کو راشن دیتے ہیں پیسے دیتے ہیں تو دیتے وقت اس کی فوٹو بناتے ہیں۔جب کہ اسلام کہتا ہے ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ہم رمضان کو سمجھتے ہیں کہ دکھاوے اور مقابلہ کا مہینہ ہے۔ کون افطاری کس انداز سے کراتا ہے کیا کھلاتا ہے۔ یہی حال سحری کے وقت کرتے ہیں۔ خوب کھاتے ہیں خوب پیتے ہیں کہ دن کو بھوک نہ لگے پیاس نہ لگے۔ لیکن قدرت نے انسان کے اندر اونٹ کا سسٹم نہیں دے رکھا۔ اونٹ کو قدرت نے پانی کا ذخیرہ کرنے کا نظام دے رکھا ہے جو اسے کافی وقت تک پیاس محسوس نہیں ہونے دیتا۔ جبکہ انسان کا ایسا سسٹم نہیں ہے لیکن ہم خواراک کا پیٹ کے اندر بھی ذخیرہ کرتے ہیں اور باہر گوداموں میں بھی خوراک کا ذخیرہ کرتے ہیں۔ کیونکہ ان ذخیرہ اندوزوں  نے اس ذات کو سمجھا ہی نہیں ہوتا۔ وہ ذات سمجھانے کے لئے عبادات اور روزہ رکھنے کو کہتی ہے۔وہ ذات پیٹ میں ذخیرہ کرنے کو نہیں کہتی۔ دوسروں کا احساس کرنے کو کہتی ہے۔کہا عبادت اور عادت کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ عبادت کے اثرات مساجد کے باہر کے معاملات میں دکھائی نہ دیں تو سمجھو عبادت نہیں انہیں عادت ہے۔۔افطاریاں ہو یا شادی بیاہ کے فنکشن یا پارٹیاں ان پر پڑے کھانوں پر ہم یوں ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے یہ ہمارا آخری کھانا ہو۔پھر ایسے میں کھانے کا جوضیاع کرتے ہیں۔پھر کھانا کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیتے ہیں۔ وہاں سے ہم جیسے انسان اس کھانے کو جانور چرند پرند کے ساتھ کھا رہے ہوتے ہیں۔ ایسا اس ملک میں ہو رہا ہوتا ہے جہاں اسلام  ہے۔ جہاں مسلمان بستے ہیں۔لگتا ہے یہ نام کے ہی مسلمان  ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے اسلام کے مطلق پڑھا نہیں ہوتا۔سمجھا نہیں ہوتا۔ہم قرآن کو پڑھنے کے بجائے اسے خوبصورت خلاف میں لپیٹ کر الماریوں میں رکھ دیتے ہیں کہ اس کا احترام کرنا ہم سب پرفرض ہے جب کہ اس کا پڑھنا بھی ہم پر فرض ہے۔کاش اسے سمجھ کر پڑھ لیتے۔ نہ گھروں میں اور نہ تعلیمی اداروں میں اسے پڑھایا جاتا ہے جس کا رزلٹ اب سب کے سامنے ہے۔ بابا کرموں نے کہا بابو وکیل آپ تو دنیا گھوم پھر آئے ہو۔کیا وہاں بھی کھانا ایسے ہی ضائع کیا جاتا ہے۔ میں نے بتایا جرمنی کے ریسٹورنٹ میں جائیں آڈر کھانے کا اتنا ہی کرتے ہیں جتنا آپ کھا سکیں ۔ وہاں اگر کھانا بچ جاتا ہے اپ پورا بل بھی ادا کر دیتے ہیں پھر بھی اگر کوئی شکایت کر دے کہ کافی کھانا چھوڑ کر یہ جارہے ہیں تو اس صورت میں جرمانہ ہو گا ۔ میں نے امریکہ کی بھی مثال دی۔ میں کلاس فیلو کے ساتھ ریسٹورنٹ گیا۔ہم نے کھانا آڈر کیا تو ہم دونوں کے لئے وہ کھانا بہت زیادہ تھا۔ جب کھانا کھا چکے تو اس نے ویٹر سے کہا جو کھانا بچ گیا ہے اسے ڈاگی فورڈ کر دو۔ یہ سن کر میں یہ سمجھا شائد اس نے گھر میں کتے پال رکھے ہیں۔ چار لفافے بنے تو دو اس نے خود اٹھا لئے اور دو مجھے دئے۔ جب ریسٹورنٹ سے گاڑی کی جانب چلنے کے بجائے اس نے دوسری جانب چلنا شروع کیا تو کہا  ہماری گاڑی دوسری جانب ہے کہا نہیں فقیر اس جانب ہیں انہیں یہ فوڈ دیں گے۔ایسا ہی ہم نے کیا۔ سوچا میں اگر  میں ہوتا تو کبھی بھی ایسا نہ کرتا کہ لوگ کیا سوچیں گے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ کن کاموں سے شرم آنی چاہے اور کن کاموں سے نہیں۔ پھر میں نے بتایا امریکہ میں ہر بیکری والا اپنا دن کا بچا ہوا مال وہ اسے چرچ کے حوالے کر آتے ہیں۔ وہ دوسرے روز بیکری ایٹم مفت میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ یہ بھی بتایا وہاں کا فقیر یہاں سے مختلف ہے۔ وہ مجبوری کے تحت مانگے گا۔ اگر اسے بھوک لگی ہے اس کے پاس ایک ڈالر ہے اس کادل ہے کہ آج میں پیزا اور سوڈا پیو گا اور اس کے لئے اسے دو ڈالر مزید چاہئے ۔ جب بھی اس کے پاس تین ڈالر ہوجاتے ہیں  وہ مانگنا بند کر دیتا ہے۔ہماری طرح پروفیشنل گداگر وہاں نہیں ہیں۔بابا کرموں نے کہا سمجھ نہیں آتی کہ ہم نا شکرے کیوں ہیں؟ اس ذات نے ہمیں سب کچھ دے رکھا ہے اور پھر بھی کبھی اندھے بن کر کبھی لنگڑے بن کر بھیگ مانگتے ہیں۔ کیوں جب کہ رزق اور موت اس ذات کے ہاتھ میں ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ ہمیں بطور مسلمان کے اس پر یقین ہونا چاہیے ۔ آپ جانتے ہیں بابا بلھے شاہ کون ہیں۔پھر خود ہی بتایا کہ بابا بلھے شاہ سے کسی نے پوچھا تھا بابا جی غریبی میں بھی اس ذات کا شکریہ ادا آپ کیسے کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں
 چڑھتے سورج ڈھلتے دیکھے
 بجتے دیوے بلدے دیکھے
 ہیرے دا کوئی مل نہ جانے
 کوٹے سکھے چلدے دیکھے
جنا دا جگ وچ کوئی نہ ہوئے
 او وی پتر پھلدے دیکھے
 انا دی رحمت اتے دیکھی
 بندے پانی تے چلدے دیکھے 
 لوکی کہندے دال نہیں گل دی 
 میں تے پتھر گل دے دیکھے
جنا نے رب دی قدر نہ کیتی 
انا نوں خالی ہتھ ملدے دیکھے
 مینوں داتا نے سب کچھ دیتا اے
کیوں نہ اس دا شکر مناواں 
 کہا ہمیں بھی اس کا ہردم شکر ادا کرنا چاہے ۔کہا علم یہ طے کرتا ہے کہ کیا کہنا ہے،تربیت یہ طے کرتی ہے کہ کیسے کہنا ہے۔طرزعمل یہ طے کرتا ہے کہ کس قدر کہنا ہے اور دانشمندی یہ طے کرتی ہے کہ کہنا بھی ہے یا نہیں۔اتنے میں افطار کا وقت ہو گیا۔ جن کا روزہ نہیں تھا وہ اپنے اپنے گھروں کو چل دئیے جن کے روزے تھے وہ ساتھ اپنیکچھ لے کر آئے ہوئے تھے۔ وہ بیٹھے رہے۔ بابا کرموں نے سب کے سامنے کھجوریں اور سادہ پانی رکھا۔پھر نم آنکھوں سے دعا کی اور فطاری کی۔

ای پیپر دی نیشن