حل طلب قومی مسائل

ہماری لا محدود خواہشاتِ کی طرح ہمارے ملکی مسائل بھی خاصے لامحدود اور گھمبیر ہیں ان میں سے بیشتر مسائل تو ایک عرصے سے حل طلب ہیں  ہر آنے والی حکومت الیکشن کے نعروں میں ان مسائل کو حل کرنے کے بلند بانگ دعوے ضرور کرتی ہے مگر اقتدار میں آتے ہی یہ مسائل قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔ حکومتی مدت اقتدار میں یہ کسی سرد  خانے میں ڈال دیئے جاتے ہیں اور حکومت ختم ہونے کے بعد یہ پھر سے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر تو پاکستان کا سب سے اہم اور دیرینہ مسئلے ہے جسے کوئی بھی حکومت اب تک حل نہیں کر سکی بس اس کے لئے چھٹی کا اعلان کر کے قراردادوں اور بیانات کے ذریعے بس اظہار یک جہتی کر کے قومی فریضہ ادا کر دیا جاتا ہے۔ 
مہنگائی ہمارے ملک کا ایک اہم  مسئلہ ہے اس کے نام پر احتجاج بھی کیا جاتا ہے مہنگائی مارچ بھی کئے جاتے ہیں مگر مہنگائی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتی عوام پر پٹرول بم ،بجلی اور گیس کے ہوشربا بلوں کے ذریعے عوامی قوت برداشت کا امتحان لیا جاتا ہے ۔بے روزگاری بھی ہمارے قومی مسائل میں سر فہرست ہے کسی حکومت نے اس اہم مسئلے کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لیا جس کی وجہ سے اس کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کا نوجوان طبقہ پڑھ لکھ کر فارغ رہتا ہے کئی کئی سال سرکاری ملازمتوں پر پابندی رینے کے باوجود من پسند لوگوں کو نوکریاں ملتی ریتی ہیں اور اصل حق دار ان سے محروم ریتے ہیں۔ بے روزگاری اور بہت سے مسائل اور جرائم کو جنم دیتی ہے اس مسئلے کے حل کے لئے عام تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی علوم کا ادراک ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبا و طالبات کی ملازمتوں کی مربوط حکمت عملی بھی ضروری ہے جلد اور صحیح انصاف کی فراہمی بھی ہمارے قومی مسائل میں خاصی اہمیت رکھتی ہے سالہا سال چلنے والے مقدمات اور انصاف میں تاخیر ہمارے عدالتی نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
 آ ج کل عدلیہ کی طرف سے جلد انصاف فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے جوکہ ایک خوش آئند امر ہے ملاوٹ ذخیرہ اندوزی  اور قیمتوں کا بے قابو ہونے ایسے مسائل ہیں جو کسی بھی حکومت کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہیں رمضان المبارک اور اہم مذہبی تہواروں پر مصنوعی مہنگائی کرکے عوام کی چیخیں نکلوانے کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے تاجر برادری اس موقع پر نیکیاں کمانے سے زیادہ منافع کمانے کوترجیح دیتی ہے اس کے برعکس بہت سے غیر ممالک میں ایسے مواقعوں پر قمیتوں میں غیر معمولی کمی کی جاتی ہے ہماری حکومتیں بیوروکریسی اور انتظامیہ اپنے قوانین اور آ ہنی ہاتھوں کو حکومتی آ شیر باد پر اپنے سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کے لئے استعمال کرتی ہیں نتیجے  کے طور پر ان کا اصل کام پس پشت رہ جاتا ہے اور یہ مسائل ہمیشہ حل طلب ہی ریتے ہیں اسی طرح بے ہنگم ٹریفک اور ناجائز تجاوزات بھی ہمارے ایسے قومی مسائل ہیں جو اب حل ہونے کی بجائے ہمارے قومی مزاج کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
 ملک میں کرپشن سفارش اور میرٹ کا ملیامیٹ کرنے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ من پسند عہدوں پر من پسند افراد کی تقرری سے ذاتی انا کی تسکین اور مفادات کے حصول کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا دال روٹی کے چکر میں عوام بالکل گھن چکر ہوکے رہ گئی ہے اداروں کی زبوں حالی نے ملکی معیشت کا پہیہ جام کر کے رکھ دیا ہے اور ہم نے تمام مسائل کا حل آ ئی ایم ایف کی امداد میں ڈھونڈ رکھا ہے۔
 آ ئی ایم ایف بھی اشرافیہ کو چھوڑ کر سارے اہداف عوام سے پورا کرنا چاہتی ہے گویا بسمل کو بسمل اور بنا والی صورت حال درپیش رہتی ہے ہزاروں خواہشوں کی طرح ہمارے مسائل بھی ان گنت ہیں اور ارمانوں کے بہت کم پورا ہونے کی طرح ہمارے یہ مسائل بھی کم کم حل ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ حکومت نے عوام کے یہ تمام مسائل حل کر دئیے تو پھر وہ حکومت اور سیاست کیسے کر پائیں گے عوام پر حکومت اور سیاست کے لئے ان مسائل کو حل طلب رکھنے میں ہی بہتری سمجھی جاتی ہے عوام غربت کی لکیر سے بہت نیچے اور اشرافیہ امارت کی تمام حدیں پار کر چکی ہے عوام پیسے  پیسے کو ترستی ہے اور اشرافیہ اربوں کھربوں میں کھیل رہی ہے۔
 سیاست اور کرکٹ ہماری عوام کے پسندیدہ موضوعات ہیں مگر اب یہ بھی قومی مسائل کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں سیاست شجر ممنوعہ اور کرکٹ منافع بخش کاروبار کا درجہ اختیار کرتی جا رہی ہے اور ہر دو رکی کارکردگی صفر ہو گئی ہے ہم نے آ تے اور جاتے ماہ و سال سے کوئی سبق نہیں سیکھا  آ زمائے ہووں کو بار بار آزمانے کی وجہ سے ہمارے مسائل بھی جوں کے توں ہیں بلکہ ان میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے وزارت اطلاعات کو حکومت اور عوام کے مابین رابطے اور اطلاعات رسانی کا کردار ادا کرنا چاہیے ہر حکومتی ادارے اور شعبے تک عوامی مسائل پہنچانے کا مربوط نظام بنانا چاہیے مگر اس وازرت کو صرف حکومت کی ترجمانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے کرتا دھرتا حکومت کے ہدی خاں اور ترجمان بنے نظر آتے ہیں حکومت تک عوامی مسائل پہنچانے کی بجائے سب اچھا ہے کی رپورٹ پہنچائی جاتی ہے ایسے میں سارے مسائل پس پشت ڈال دئیے جاتے ہیں اور عوام کو فلسفے کی ڈور میں الجھا دیا جاتا ہے۔
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن