قومی صحافتی دھارے میں غیر متزلزل ارادوں اور کارکردگی کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان کا محافظ ہونا اور ثابت قدم رہنا رحمت خداوندی کے ہمراہ کسی بھی قسم کے طرہ امتیاز سے کم نہیں اور روز نامہ نوائے وقت اس کی زندہ جاوید مثال ہے نہ صرف یہ بلکہ اس سے بڑھ کر کرہ عرض پر ہویدا ہونے والا واحد اسلامی ملک پاکستان کے بانی حضرت قائد اعظم کی خواہش پر تحریک ازادی سے لے کر تکمیل پاکستان تک ہندو انگریز گٹھ جوڑ اور پروپیگنڈا کو زائل کرنے کے لیے بانی روزنامہ نوائے وقت مرحوم حمید نظامی صاحب جو کہ اس وقت مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے صدر بھی تھے کو اخبار کی اشاعت کا کہنا ایک اور نمایاں اعزاز کی بات ہے قائد اعظم محمد علی جناح ایک زیرک نگاہ اور دور اندیش لیڈر تھے بر صغیر کے ہم عصرہنماؤں کے مقابلے میں کوئی ان کی سیاسی بصیرت اور ادراک کا ہم پلہ نہ تھا یہی وجہ ہے کہ اج قیام پاکستان کو 76 سال سے اوپر کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن ہمارے لیڈر قائد اعظم کہ دو قومی نظریہ کے بارے میں پیش کیے جانے والے تحفظات اور تفکرات یکسر اور بدتریج وقوع پذیر ہوتے ہوئے عین درست ثابت ہو رہے ہیں۔
بانی پاکستان کا تحریک پاکستان کے قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ایک متحرک اور فرمانبردار حمید نظامی جیسے نوجوان کو بر صغیر میں پہلے سے مطبوعہ اردو صحافت کے میدان میں شائع ہونے والے سیکڑوں اردو اخبارات کے باوجود بھی ایک نئے اخبار کی اشاعت کی نصیحت کرنا اعلی درجے کی دانائی سے کم نہ تھا یہ بات بڑی اہم ہے کہ بر صغیر میں تحریک ازادی کے دوران اردو صحافت نے قابل تعریف اور اہم کردار ادا کیا ہے جہاں ایک طرف اردو صحافت نے برطانوی سامراج کے خلاف شاعروں ادیبوں مفکروں اور عالموں کو اردو اخبارات کے توسط ہندوستان کے مسلمانوں کو ازادی کا شعور دیا وہاں تحریک ازادی ہند میں تیزی لانے کا موجب بھی بنے چونکہ ازادی سے قبل 30 فیصد کے قریب اردو اخبارات کے مالکان ہندو تھے تو احتمال کامل تھا کہ پاکستان کی تحریک کے لیے یہ نہ صرف متعصبانہ کردار ادا کریں گے بلکہ ازادی کی تحریک کو پراپیگنڈا کے ذریعے روکنے کا بھی سبب بنیں گے یہی وہ وقت تھا جہاں ایک آزاد ترین مسلم نمائندہ اخبار کی ضرورت تھی اور اس ضمن میں قائد اعظم محمد علی جناح کا نوائے وقت کی اشاعت کا مشورہ انتہائی کارگر ثابت ہوااور پھر وقت نے ثابت کیا۔ آج بھی مرحوم حمید نظامی اور مجید نظامی برادران کی رحلت کے باوجود بھی روزنامہ نوائے وقت واحد ایسا قومی روزنامہ ہے جس نے اج تک نظریہ پاکستان پر کبھی بھی کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ نظریہ پاکستان کا ایک اٹوٹ حصہ بن کے دشمنان پاکستان بالخصوص ازلی اور منافق دشمن بھارت اور اس کے حواریوں کے پراپیگنڈا کو ہمیشہ وقت پر اور موثر منہ توڑ جواب دیا ایک دوسرا بڑا فخر نوائے وقت کی داغ بیل بھی قرارداد پاکستان کے ہمراہ ڈالی گئی شروع میں یہ 15 روزہ اخبار تھا۔
ویسے تو اس کے پہلے شمارے کی اشاعت 29 مارچ 1940 کو ہوئی لیکن اس کی سالگرہ 23 مارچ یعنی یوم قرارداد پاکستان کے ساتھ ہی منائی جاتی ہے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی بر صغیر پاک و ہند میں بہت سے اردو اخبارات شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن اج ان کا کہیں نام و نشان نہیں ہے اسی کی وجہ یہ نہیں کہ نوائے وقت کو کبھی مسائل درپیش نہیں ائے بلکہ دیگر اخبارات کی مانند نوائے وقت کو بہت سے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔
حمید نظامی اور مجید نظامی کی پیشہ وارانہ مہارت اور قومی نظریات کے ساتھ کمٹمنٹ کی بنا پر ہر قسم کے بھنور میں سے نکلنے میں نوائے وقت کامیاب رہا اور جبکہ اس کی دوسری وجہ پاکستانی شہریوں میں قومی اخبار نوائے وقت کا بے حد مقبول ہونا اور اعتماد بھی ہے یہی وجہ نوائے وقت جتنا موثر ہے اتنا ہی اسے ہر امر کے ساتھ ساتھ مخالف سیاسی نظریات کے حامل جمہوری حکمرانوں کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑا اور اس طرح سابقین کی نوائے وقت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی تمام تر کوششیں لذت بے گناہ ثابت ہوئیں اور اس کے پیچھے اقا دو جہاں کی حدیث مبارکہ ہے جس میں ارشاد ہے کہ'' ظالم حکمران کے اگے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے" نوائے وقت کی حدیث نبوی پر مبنی اس سلوگن نے ہمیشہ ہی ادارہ کو تقویت اور رہنمائی بخشی ہے جس کی عکاسی معروف شاعر اکبر الہ ابادی نے یوں کی ہے
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
نوائے وقت کا کلمہ حق کہنے کا خاصہ صرف اپنے ملک تک ہی محدود نہیں بلکہ امت مسلمہ سے محبت اور یگانگت ادارہ کے بانیوں اور مالکان میں کوٹ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے یہی وجہ رہی کہ جب جب بین الاقوامی استعمار نے مسلم امہ کے مظلوم لوگوں کو اپنا ٹارگٹ بنایا تب تب نوائے وقت واحد قومی اخبار ثابت ہوا جس نے بین الاقوامی سطح پر مستقل کمپین کے تحت عالمی امرو اور غاصبوں کو بھی بے بانگ دہل للکارا چاہے وہ افغان جہاد کا دور ہو یا پھر بھارت کی کشمیر کی ائینی حیثیت تبدیل کرنے کی قبیہ سازش ہو
یہی وہ خصوصیات ہیں جو ادارہ نوائے وقت کو قومی مطبوعہ صحافت کی صف میں اوج کمال وبے مثال پر لا کھڑا کیا ہے جس کا کوئی ثانی نہیں کیونکہ نوائے وقت نظریہ پاکستان اور حب الوطنی کا ایک زبردست استعارہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی تاریخ کو درست رکھتے ہوئے آنیوالی نسلوں تک پہنچانے کا شاندار امین ہے اور یہ تب ہی ہوتا ہے جب صحافت کو کاروبار کی بجائے ایک خاص مشن کے تحت چلایا جائے دراصل نوائے وقت ایک مشن اور مستند تاریخ ہے یوم پاکستان اور نوائے وقت کی اس سال 84 ویں سالگرہ ہے دونوں کا سنگ قومی سلامتی کی امنگ ہے پاکستان زندہ باد نوائے وقت زندہ باد