ان دنوں جناب مجیب الرحمان شامی اور جناب وجاہت مسعود کے درمیان قرارداد مقاصد کا تقدس اورلیاقت علی خاں کی جمہوریت پسندی زیر بحث ہے۔ لیاقت علی خاں کرنال کے تعلقہ دار تھے۔ ایک فیوڈل لارڈ اول و آخر فیوڈل لارڈ ہوتا ہے۔ ایک فیوڈل لارڈ کا پیٹ کبھی بھوکا نہیں رہتامگر اس کی آنکھ ہمیشہ بھوکی رہتی ہے جو سب کو ہمیشہ اپنا تابع اور محتاج دیکھنا چاہتی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم کا یہ جملہ بہت مشہور تھا۔ ہندو قوم ایک روپے میں سے اٹھارہ آنے کا حصہ مانگتی ہے۔ یاد رہے ان دنوں ایک روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے۔ امر واقع یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فیوڈل لارڈ اور مقتدر طبقہ ایک روپے میں سے اٹھارہ آنے لے چکے ہیں۔ کیسے؟ یقین کیجئے یہ سچ ہے۔ بہر حال یہ لیاقت علی خاں کی ’’جمہوریت پسندی‘‘ تھی کہ پاکستان کے پہلے ضمنی انتخاب میں انہوں نے مسلم لیگ کے خلاف ووٹ کو ریاست کیخلاف ووٹ قرار دیا۔خورشید کمال نے اپنی کتاب ’’Murder of History ‘‘
میں قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کے کشیدہ تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔ بہر حال وہ لکھتے ہیں کہ انگریزوں اور کانگریس سے بڑی عجلت والی گفت و شنید کے نازک مراحل میں (1945کے بعد) قائد اعظم یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ مسلم لیگ میں اندرونی نفاق ہے۔ اسی لئے جولائی 1947ء میں قائد اعظم نے بھوپال کے نواب محمد حمید اللہ کو پاکستان آکر وزارت عظمٰی سنبھالنے کی پیشکش کی تھی مگر ان کی ذاتی مجبوریاں حائل ہوگئیں۔
قرارداد مقاصد کے ’’تقدس‘‘ پر نظر ڈالتے ہوئے مولانا حسرت موہانی کی رائے پر ضرور غور کرلینا چاہئے۔ پاکستان بنا توحسرت موہانی ہندوستانی مسلمانوں کی آواز کو تقویت دینے کے لئے وہیں رہ گئے۔پھر وہ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں گرجتے برستے رہے۔ صرف ایک مرتبہ پاکستان آئے اور گورنر جنرل قائد اعظم کے ہاں قیام کیا۔ جلیل قریشی نے اپنی کتاب ’’تاریخ کا سفر میں‘‘قائد اعظم کی وفات کے بعد قرارداد مقاصد منظور ہونے پر ان کا تاسف بھرا تبصرہ یوں بیان کیا ہے:’’اللہ کی حاکمیت کا تصور خارجیوں کا نعرہ تھا۔ خارجی قبائلی لوگ تھے اور کوئی خود کار ریاستی ڈھانچہ قائم نہ کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے اپنی سرداریاں قائم رکھنے کے لئے اللہ کی حاکمیت کا سہارا لیتے تھے۔ اب آج کے زمانے میں آپ اس ارفع نظریے کو ریاستی ڈھانچے کا رہنما اصول بناتے ہیں تو بے ایمانی کرتے ہیں کیونکہ یہ ارفع نظریہ زمان و مکاں کی قید سے ماورا ہے، اسے کسی ریاستی آئین کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔آئین زمان و مکان کا پابند ہوتا ہے اور تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ محمد علی جناح زندہ ہوتے تو اس کی نوبت کبھی نہ آتی۔ لیاقت علی خاں زمینداروں اور مولویوں کی مدد سے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ پاکستان کے عوام کے حق حاکمیت کو تسلیم کرتے توپھر استحصالی طبقوں کو بچا نہیں سکتے تھے اور اب اس میں مولوی ان کو مذہبی جواز پیش کریں گے‘‘۔ مولانا حسرت موہانی کی رائے کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ تمام نوابزادے، جاگیردار اور مولو ی ویسا جمہوری، عوام دوست پاکستان نہیں چاہتے تھے جیسا پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح کی تیرہ ماہ کی تقاریر سے ظاہر ہو رہا تھا۔
قائد اعظم نے اپنی فہم و فراست کے مطابق ایک مضبوط بنیاد قائم کرنے کے لئے 1944ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی اجلاس میں اپنے خطاب سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو یوں متنبہ کیا تھا: ’’یہاں میں جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک ایسے ظالمانہ اور شر پسند نظام کی پیداوار ہیں جس کی بنیادیں ہمارے خون سے سینچی گئی ہیں۔ عوام کا استحصال ان کی رگوں میں خون بن کر گردش کر رہا ہے اسلئے ان کے سامنے عدل اور انصاف کی کوئی دلیل کام نہیں کر تی۔ ہمارے ہاں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں انتہائی مشقت کے باوجود صرف ایک وقت کی روٹی میسر ہے۔ کیا یہ ہے ہماری شاندار تہذیب؟کیا پاکستان کا مطلب یہ ہے؟‘‘۔افسوس کہ بانی پاکستان کے یہ خواب اب تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے۔ جاگیرداری نظام کا خاتمہ تو درکنار آج تک کسی حکمران کو زرعی ٹیکس عائد کرنے کی جرأت نہیں ہو سکی۔ علامہ اقبال? 1926-30 پنجاب قانون ساز اسمبلی کے منتخب رکن تھے۔ اس دوران انہوں نے ہر بجٹ اجلاس میں اپنی تقریریں زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کے حق میں انتہائی موثراستدلال پیش کئے۔
لاہور میں پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی اپنی زیر صدارت پاکستان کانفرنس میں قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبے میں یوں فرمایا:’’یہ عجیب اتفاق ہے کہ مسلم لیگ کی قرارداد اسی شہر لاہور سے مارچ کے مہینے میں منظور ہوئی۔ آج آپ کی کانفرنس بھی اسی شہر میں مارچ میں ہو رہی ہے لہٰذا March On‘‘۔ اس کانفرنس کے بعد طلباء کی صفوں میں مستقل کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ دیہاتوں میں پاکستان ریزولیوشن کا مطالبہ پھیلانے والی کمیٹی کے صدر بانی ’’نوائے وقت‘‘ حمید نظامی تھے۔ جس کمیٹی نے ایک ہی سال میں پنجاب کے مختلف شہروں اور قصبو ں میں 138شاخیں قائم کیں اور 14823 ممبران بنائے۔ مگر اس قرارداد کی مخالفت تیز رو بھی تھی اور پرشور بھی۔ اس پرزور مخالفت میں ہندو پریس کے علاوہ مسلمان مولویوں کے فتوے بھی شامل تھے۔ مولوی قائد اعظم کی مخالفت کو خدمت اسلام کہتا تھا۔ اسلئے وہ آخری حد تک ان پر کفر کے فتوے لگاتا رہا۔ جب پاکستان کا قیام یقینی ہو گیا تو مولوی اس نئے گھوڑے پر کاٹھی ڈالنے کیلئے 1947ء میں اس نئے نعرے کے ساتھ شامل ہو گیا ’’پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لاالہ الا اللہ‘‘۔ مسعود مفتی نے لکھا’وہ اس کلمے کی تشریح اس انداز میں نہیں کرتا تھا جس انداز میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کرتے تھے۔ مْلاکی اذاں اورمجاہد کی اذاں اور‘۔ اسطرح یہ نعرہ پاکستان کی جدو جہد کے بالکل آخری مرحلے میں بلند ہونے لگا۔
آج کے حالات میں سب سے اچھی اور امید افزا بات صرف یہ ہے کہ ہمارے عوام بیدار ہو گئے ہیں۔ وہ سب کچھ سمجھ گئے ہیں۔ اپنے اصلی مجرموں اور چوروں کو جان گئے ہیں، پہچان گئے ہیں۔
لیاقت علی خاں۔ قرارداد مقاصد۔ مولانا حسرت موہانی
Mar 25, 2024