’’اللہ میاں۔ 0کلومیٹر‘‘

Mar 25, 2024

سکندر خان بلوچ

  بحواالہ میرا کالم مؤرخہ 18مارچ ’’جب دنیا کی چھت محاذ جنگ بنی‘‘ 
  یہ ہیں وہ الفاظ جو ایک نوجوان فوجی آفیسر نے دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ سیاچن میں اپنی پوسٹ پر پہنچ کر ایک چٹان پر لکھے۔ یہ سادہ سے الفاظ اپنی تہہ میں گہرے معنی رکھتے ہیں۔ اس واقعہ کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ 1984 میں جب فوج کو یہ محاذ سنبھالنا پڑا تو محاذ پر جانے والی یونٹوں میں کچھ شہادتیں ہو ئیں اور یہ سب کی سب بغیر دشمن سے لڑے ہوئے ہوئیں۔ سامنے بھارتی فوج تو دشمن تھی ہی لیکن سب سے بڑا دشمن موسم ثابت ہوا اور یونٹوں کے کچھ جوان بغیر لڑے اس موسم کا شکار ہوگئے کیونکہ پاکستان فوج بنیادی طور پر برفانی علاقے میں لڑائی کے لئے تیار نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس سے پہلے کبھی اس قسم کی جنگ لڑنے کا اتفاق ہوا تھا۔ لہٰذا جتنی زیادہ بلند پوسٹ ہوتی اتنے زیادہ خطرات بھی تھے۔ وطن کی حفاظت کے لئے ہر فوجی کی جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے جانا پڑتا ہے۔ وہاں کیا ہوتا ہے یہ اس کی قسمت۔ شروع شروع میں شدید موسم اور زمینی حقائق کی پرواہ کئے بغیر لوگوں کو آگے پوسٹوں پر بھیجا گیا۔ شاید اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ یہ لوگ اتنے شدید موسم کو برداشت کرنے کے عادی نہ تھے اورنہ ہی اتنی بلندی پر برف میں چلنے کی کوئی تربیت تھی لہٰذا نتیجہ جوانوںکی موت کی صورت میں سامنے آیا۔ شدید موسم اور برفانی سرزمین کا مقابلہ کرنا ہرسپاہی اورہرآفیسر کے بس میں نہ تھا۔ اس وقت برفانی علاقے والی وردی اور وہاں پر استعمال ہونے والے اوزار یا ہتھیار و غیرہ بھی میسر نہ تھے۔
   سیاچن گلیشیئر تقریبا 78 کلومیٹر لمبا ہے۔ بحر منجمد شمالی اور بحر منجمدجنوبی کے بعد اس کا تیسرا نمبر آتا ہے اوراِسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ اٹلس کے مطابق اسکی بلندی 18 ہزارفٹ سے 24 ہزارفٹ تک ہے۔سردیوں میں درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ 150 سے 250 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے برفانی ہوائیں چلتی ہیں جنہیں  Snow Blizzard کانام دیا جاتا ہے۔ سردیوں میں کئی گزتک برفباری ہوتی ہے۔ ان حالات میں کسی ذی روح کا زندہ رہنا ممکن ہی نہیں۔ ذرہ سی لا پرواہی ہمیشہ کے لیے معذور کرسکتی ہے۔
  ’’سیاہ چین ‘‘کا مطلب مقامی بلتی زبان میں ’’سیاہ گلاب‘‘ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے کچھ زیریں علاقے میں جب برفی پگھلتی ہے تو پورا علاقہ خودرو پھولوں سے مہک اٹھتا ہے۔ گلاب اس علاقے کا سب سے زیادہ اگنے والا پھول ہے جو گرمیوں میں میلوں تک پھیلا ہوتا ہے اور اس کے پودے بھی پاکستان میں پیدا ہونے والے عام پودوں سے بڑے ہوتے ہیں لیکن جیسے جیسے بلندی پر آگے بڑھتے ہیں تو یہ خود رو پودے ختم ہوتے جاتے ہیں اور تمام علاقہ برفانی میدان میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاںبرفانی چوہوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ انسانی آبادی کا تصور بھی ممکن نہیں۔  یہ غالبا ً1985 کا واقعہ ہے کہ ایک نو جوان آفیسر کی پوسٹنگ سیاچن کیلئے ہوئی۔ وہ اپنے بیس کیمپ سکردو پہنچا۔ کمانڈر سے ملاقات ہوئی۔ تو اس نے پوچھاـ:
’’سر میری پوسٹنگ کس پوسٹ (چوٹی) پر ہوئی ہے؟‘‘  … ’’تمہیں ہم اللہ میاں کے پاس بھیج رہے ہیں۔ ‘‘کمانڈر نے مذا قا ًجواب دیا۔ اس کا مطلب تھا بلند ترین چوٹی۔
  اللہ میاں کے پاس جانے کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ انسان لوٹ کر واپس نہیں آتا اور تقریبا یہی کچھ حالت اس وقت ان پوسٹوں کی تھی۔ فوجی او پر جاتے تو تھے لیکن بسلامت واپسی کی شرح قدرے کم تھی۔ کچھ راستے ہی میں حادثات کا شکار ہوکر اللہ میاں کے پاس پہنچ جاتے اور کچھ سخت بیماری کی حالت میں بذریعہ ہیلی کا پٹر نیچے لائے جاتے۔یوں یہ مذاق حقیقت کا روپ دھار گیا۔ لہٰذا وہ نوجوان آفیسر اوپراپنی پوسٹ کا فاصلہ راستے میں آنے والی چٹانوں پر’’ اللہ میاں۔کلو میٹر‘‘ ظاہر کرتا گیا۔جب اپنی پوسٹ پر پہنچا تو لکھا’’اللہ میاں 0کلومیٹر‘‘ کیونکہ یہ وہاں کی بلند ترین پوسٹ تھی۔ وہاں سردی کا یہ عالم تھا کہ سانس باہر نکالتا تو برف کی ٹکڑیاں بن کر گرتیں۔ دو قدم چل کر رکنا پڑتا کہ سانس بند ہو جاتا۔ پیاس بجھانے کیلئے برف منہ میں رکھنی پڑتی کہ وہاں پانی کا وجود ہی نہ تھا۔ اردگر نظر اٹھتی تو ہر طرف برف ہی برف نظر آتی یا سامنے دشمن کی پوسٹ۔ اس آفیسر کی جب دشمن کی پوسٹ پر نظر پڑی تو اسے اپنی اہمیت اور یہاں آنے کے مقصد کا احساس ہوا۔ تھکاوٹ بھول کر آگے بڑھا۔ پوسٹ پر لگے پرچم کو سیلوٹ کیا اور نیچے لکھ دیا’’پیارے پاکستان تیرا بیٹا حاضر ہے ‘‘ حالات جیسے بھی ہوں۔ موسم کتناہی شدید ہووطن کے یہ بیٹے آج تک دہاں عیار دشمن کیخلاف سینہ سپر ہیں۔ بعد میں آنے والے آفیسرز نے اس لکھائی کو مزید پکا کر دیا۔ چٹانوں پر لکھی گئی یہ تحریر شاید تاحال قائم ہو۔
   معزز قارئین یہ ہے دنیا کا بلند ترین محاذ جہاں اسوقت ہماری فوج وطن کی حفاظت کے لیے 1984 سے سینہ سپر ہے۔ اس وقت تک کئی شہادتوں کا ہد یہ پیش کر چکی ہے۔ معذور ہونے والے فوجیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ جنگ ایسے ہی ایک خطر ناک اور تباہ کن انسانی فعل کا نام ہے لیکن یہ محاذ خصوصی طور پر انسانی تباہی و بربادی کی زندہ مثال ہے۔ وطن کی حفاظت میں دشمن سے لڑ کر شہادت حاصل کرناتو اعزاز کی بات ہے لیکن بن لڑے موت کا شکار ہو جانا افسوسناک ہے۔ یہی وہ محاذ ہے جہاں سکردوکے نزدیک گیاری میں8 اپریل2012 کی صبح ایک پہاڑ نما برفانی تودہ بٹالین ہیڈ کوارٹر پر آگرا اور 140 مجاہدین اور اس ارض پاک کے بیٹے برف کے اس تو دے تلے دب گئے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود وہ زندہ نہ نکالے جا سکے۔اس سانحہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔پوارا پاکستان غم و افسوس میں ڈوبا رہا۔ پوری قوم پاک وطن کے ان بیٹوں کو ہدیہ عقیدت پیش کرتی ہے اورانکے وارثین کیساتھ غم میں برابر کی شریک ہے صحرا اور برف کی جنگ تو ویسے بھی بہت خوفناک ہوتی ہے جو ہر زندہ چیز کونگل جاتی ہے۔دنیا کے برفانی علاقوں میں بہت کم جنگیں ہوئی ہیں اور جو ہوئی ہیں اْنکا نتیجہ بھی سوائے فوجیوں کی تباہی کے کچھ نہیں نکلا۔فاتح اور مفتوح دونوں پچھتاوے کے علاوہ کچھ حاصل نہ کر سکے۔کشمیر کی ڈوگرہ فوج نے 1842ء میں تبت پر چڑھائی کی اور اپنی ساری فوج بغیر جنگ کئے برف میں تباہ کرا دی۔سر پھرے ہٹلر نے بھی دوسری جنگِ عظیم میں سٹالن گراڈ فتح کرنے کی کوشش کی تھی تو وہ اْسکی آخری جنگ ثابت ہوئی۔ برفانی میدانِ جنگ میں اپنی فوج مروا کر فتح کا سارا نشہ کافور ہو گیا۔ حالانکہ جرمن آرمی اْسوقت دنیا کی بہترین آرمی تھی۔ فوجی جنرلز آج بھی اِس جنگ کو بطور مثال سٹڈی کرتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت تو ویسے ہی غریب ممالک کی صف میں شمار ہوتے ہیں۔ جو اتنے زیادہ جنگی مصارف اور انسانی جانوں کے ضیاع کے متحمل ہی نہیں ہوسکتے۔
   سیاچن پر لڑی جانیوالی جنگ ایک بے مقصد جنگ ہے جہاں دونوں طرف بہت سے لوگ بغیر لڑے ہوئے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دونوں افواج کا مشترکہ دشمن شدید موسم ہے لہٰذا دونوں افواج کو بیک وقت دودشمنوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ 1984 سے اب تک دونوں ممالک کی افواج کافی سے زیادہ افراد اللہ میاں کے پاس بھیج چکی ہیں اور یہ سلسلہ بغیر تعطّل جاری ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں سنگدل ممالک ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ اچھے پڑوسی ہونے کے آداب اور اہمیت ایک دوسرے کو بار بار بتاتے رہتے ہیں۔ مورخین کا خیال ہے کہ صدیوں سالوں پر محیط ہماری تاریخ بھی مشترک ہی تھی۔ اسکے باوجود دونوں ممالک کی خوبی یہ ہے کہ دونوں اچھا پڑوسی بننے کے لیے تیار نہیں۔ تقسیم ہند کے وقت سے لیکر اب تک ہم ایک دوسرے کے کسی نہ کسی بہانے ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 10 لاکھ آدمی اللہ میاں کے پاس بھیج چکے ہیں لیکن زباں پر اچھے پڑوسی ہونے کا ورد جاری ہے۔ دونوں ممالک دھڑلے سے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر مذاکرات کرتے ہیں لیکن ہر دفعہ مذاکرات کا نتیجہ پہلے ہی غریب عوام کو معلوم ہوتا ہے یعنی ’’عدم اتفاق پر اتفاق‘‘ اس کی سب سے بڑی وجہ بھارت کی ہٹ دھرمی ہے وہ راہ راست پر آجائے تو ایک دن میں سارے مسائل حل اورسیاچن میں اموات کا سلسلہ رک سکتا ہے۔بہر حال مایوسی گناہ ہے۔ دنیا امید پر قائم ہے کے مصداق اچھے نتائج کی امید رکھنی چاہیے کیونکہ ہماری نئی حکومت نئی منزل اور نئے سفر کی نشاندہی کررہی ہے۔جو بھارت کو شاید راہ راست پر لے آئے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اْسے کامیاب کرے۔ آمین!

مزیدخبریں