پاکستان اس وقت اقتصادی حوالے سے جن سنگین مسائل کا شکار ہے انھیں سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نئی حکومت کو ایسے معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے جن کے لیے بنیادی پالیسی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ان کے ساتھ کابینہ میں شریک تمام لوگ ان چیلنجوں سے واقف بھی ہیں اور اس سے پہلے بھی مختلف حیثیتوں میں کام کرتے ہوئے وہ ان چیلنجوں کو قریب سے دیکھ چکے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں اور میثاقِ معیشت یا کوئی بھی اور ایسی پالیسی بنائیں جس کی مدد سے ملک کو ان سنگین مسائل کی دلدل سے نکالا جاسکے کیونکہ ان مسائل کی وجہ سے ایک طرف ریاست کمزور ہورہی ہے تو دوسری جانب عوام میں شدید مایوسی پھیل رہی ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم نے اس سلسلے میں کام شروع کردیا ہے۔ یومِ پاکستان کی پریڈ میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کرنے والے سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان بن عبد العزیز سے ملاقات کے دوران بھی محمد شہباز شریف نے اسی بات پر زور دیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی کے ساتھ ساتھ معاشی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ملاقات میں دوطرفہ امور، علاقائی امن و سلامتی اور خطے کی سکیورٹی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔دونوں ممالک کے درمیان دفاع اور سکیورٹی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ گہرے برادرانہ تعلقات ہیں جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان میں زراعت ، معدنیات ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔
معاشی مسائل حل کرنے کے لیے پاکستان نے چین کی سرمائے کی مارکیٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یورپ سمیت دوسرے ممالک میں شرح سود زیادہ ہے اور حکومت کو توقع ہے کہ چین کی سرمائے کی مارکیٹ سے یورپ کے مقابلے میں کم شرح سود قرضہ مل سکے گا۔ اسی بات کو پیش نظر رکھ کر وفاقی وزیر خزانہ نے چینی مارکیٹ کے لیے پانڈا بانڈز جاری کرنے کا اعلان کیا جن کا حجم 300 ملین ڈالر ہو گا۔ ان بانڈز کو جاری کرنے کا اعلان تو کردیا گیا ہے لیکن ان کا اجراء ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہے جس میں پاکستانی قوانین کے ساتھ ساتھ اس مارکیٹ کے قوانین کی پاسداری کرنا پڑے گی جہاں کے سرمایہ کار ان بانڈز کو خریدیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو کیسے دور کرتی ہے اور کتنی جلد ان بانڈز کے اجراء کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جو حالیہ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کو کامیابی سے مکمل کیا ہے اور اس کے بعد نئے پروگرام کے لیے بات چیت کا جو اعلان ہوا ہے اس سے پاکستان کے لیے کئی بہتر مواقع پیدا ہورہے ہیں۔ اعداد و شمار دیکھے جائیں تو اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ 128 ملین مثبت ہے جس کی روشنی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا متوقع ہدف چھے بلین ڈالر سے کم کر کے دو بلین ڈالر کیا گیا ہے۔ پاکستان کے لیے غیر ملکی فنانسنگ کا گیپ جو تخمینہ پہلے 17 ارب ڈالر لگایا گیا تھا وہ اب کم ہو کر11 بلین ڈالر تک رہ گیا ہے۔ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی اطلاعات کی وجہ سے پاکستان کے ساورن بانڈ کو تقویت ملی ہے۔ اس صورتحال میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین کی مارکیٹ میں داخل ہونے کا یہ بہترین موقع ہے۔ ویسے بھی یورو بانڈ کے مقابلے میں پاکستان کو پانڈا بانڈ میں سود کی مناسب شرح مل سکتی ہے۔
اقتصادی معاملات میں بہتری کے حوالے سے ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ عالمی بینک نے پاکستان کو دو منصوبوں کے لیے 14 کروڑ 97 لاکھ ڈالر کی فنانسنگ کی منظوری دیدی ہے۔ عالمی بینک پاکستان کو 7 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ڈیجیٹل اکانومی انہانسمنٹ پراجیکٹ کے لیے فراہم کرے گا اور اس منصوبے کے تحت شہریوں اور فرموں کے لیے ڈیجیٹل طور پر فعال عوامی خدمات کی فراہمی کی توسیع میں معاونت کرے گا۔ دوسری فنانسنگ عالمی بنک 7 کروڑ 17 لاکھ ڈالر سندھ بیراجز امپروومنٹ پراجیکٹ کے لیے فراہم کرے گا۔ منصوبے کے تحت سیلاب سے بچاؤ اور سندھ کے تین بیراجوں کی حفاظت اور انتظام میں بہتری میں معاونت ملے گی۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بیرونی دنیا سے اچھے اشارے مل رہے ہیں ملک کے اندر موجود سٹیک ہولڈرز کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں شہباز شریف کی میثاقِ معیشت سے متعلق تجویز پر غور کیا جانا اور تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اپنے اختلاف بالائے طاق رکھتے ہوئے اس وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ ملک کو اقتصادی طور پر اپنے پاؤں پر کیسے کھڑا کیا جائے۔ ملک کو اقتصادی اعتبار سے مستحکم بنا کر ہی تمام سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے سرخرو ہوسکتی ہیں۔
نئی حکومت کو بڑے معاشی چیلنجوں کا سامنا
Mar 25, 2024