سپریم کورٹ نے این آراو فیصلے پرعملدرآمد کیس کی سماعت دوہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئےحکومت سے سوئس مقدمات ری اوپن کرنے سے متعلق تفصیلی جواب طلب کرلیا ۔

سپریم کورٹ میں جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بنچ نے این آراو عمل درآمد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پروفاقی وزیرقانون بابراعوان دیگر وزرا کے ہمراہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے اورعدالتی فیصلے پرعمل درآمد سے متعلق کیے گئے اقدامات کی رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اب تک این آراوپرعدالتی فیصلے کے مطابق نواقدامات پرعمل درآمد کیا ہے جبکہ دسویں اقدام کی راہ میں رولزآف بزنس رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اسلام آباد میں دو نیب کورٹس کی منظوری دے دی ہے جبکہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف کارروائی کی ہدایت بھی کی جاچکی ہے، نیب پراسیکیوٹرزکی تعداد میں اضافے کا بھی نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں ساٹھ ملین ڈالرسے متعلق معاملے پربابراعوان نے کہا کہ ساٹھ ملین ڈالر کا معاملہ ہوائی ہے جسے بڑھا چڑھا کرپیش کیاگیا۔
انیسو ستانوے میں اٹارنی جنرل کو اختیارنہیں تھا کہ وہ سوئس مقدمات کھولے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سوئس مجسٹریٹ کے پاس ساٹھ ملین ڈالرکا معاملہ نہیں تھا۔ سوئس مجسٹریٹ نے اپنی مرضی کا خط لکھوانے کا کہا تھا اورسابق اٹارنی جنرل نے من وعن وہ خط سوئس مجسٹریٹ کو بجھوا دیا ۔  اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں کہ سوئس اکاؤنٹس میں ساٹھ ملین ڈالر کی واپسی کے لیے حکومت پاکستان نے کوئی دعویٰ کیا ہے یا نہیں۔ اس پروفاقی وزیرنے کہا کہ اس رقم کا تعلق ہماری پارٹی قیادت سے جوڑا جارہا ہے جو کہ غلط ہے۔ فاضل عدالت نے کہا کہ ہم قطعاً پارٹی قیادت سے تعلق نہیں جوڑ رہے، ہمیں یہ بتائیں کہ کیا اس رقم کے سلسلے میں آپ نے سوئس حکام سے رابطہ کیا ہے یا نہیں۔ جسٹس راجہ فیاض نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ این آراو پرعدالتی فیصلے پرعمل درآمد میں کتنے مہینے اور دن درکار ہیں۔ وفاقی وزیر نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ضروری مصروفیات کے باعث ملک سے باہر جارہے ہیں لہٰذا انہیں تفصیلی جواب داخل کرانے کے لیے تین ہفتے کی مہلت دی جائے۔ بعد ازاں عدالت نے تفصیلی جواب کیلئے دو ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت دس جون تک ملتوی کردی ۔

ای پیپر دی نیشن