گلگت / بلتستان / ہنزہ (نیوز ایجنسیاں) ہنزہ میں لینڈ سلائیڈنگ سے بننے والی عطا آباد جھیل ٹوٹنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے اور جھیل میں رساﺅ کے باعث پانی کی سطح کم ہو کر 352.6 فٹ ہو گئی ہے اور پانی آبادیوں میں داخل ہو رہا ہے، جھیل میں پانی کی روزانہ آمد 2 ہزار کیوسک اور اخراج 150 کیوسک ہے۔ جب کہ بٹ گرام کے علاقے سے 2 ہزار خاندانوں کے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ حکام کے مطابق جھیل ٹوٹنے سے ضلع دیامر کے 22 علاقے متاثر ہوں گے۔ انتظامیہ نے دریائے سندھ کے کنارے 60 فٹ کے ایریا کو ریڈ زون قرار دے کر دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ آن لائن کے مطابق نیسپاک اور پی ڈبلیو ڈی کے انیجنئرز کی رپورٹ کے مطابق جھیل اور سپل وے کے درمیان 14 فٹ کا فاصلہ رہ گیا ہے اور ممکنہ سیلاب کی صورت میں دریائے ہنزہ کنارے واقع کئی پاور سٹیشن زیر آب آنے کا اندیشہ ہے۔ آئی این پی کے مطابق ڈاﺅن سٹریم میں واقع کئی آبادیوں میں انتظامیہ کی جانھب سے خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے رحیم آباد، نومل، دن پور، جلال آباد سمیت دیگر علاقوں کے رہائشیوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ انہوں نے متاثرین ہنزہ کی طرح کے ریلیف کا حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔ ادھر اے این این کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم احمد نے کہا ہے کہ عطا آباد مصنوعی جھیل کو مستقل ڈیم میں تبدیل کرنا ممکن ہے نہ ٹوٹنے سے تربیلا کو کوئی خطرہ لاحق ہو گا۔ بی بی سی کے ایک پروگرام میں انہوں نے کہاکہ ہنزہ جھیل کا پانی بالآخر تربیلا جھیل میں جائے گا اگر اس پانی کو یہاں روکا گیا تو جو زیر آب آ جانے والی آبادیوں پر بہت بڑا ظلم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں ڈیمز نہیں بنائے جاتے۔ شاہراہ قراقرم کے مستقل حل میں دو سے تین سال لگ سکتے ہیں۔ پروگرام میں ہنزہ کے ڈپٹی کمشنر ظفر وقار تاج نے بتایا کہ بند میں شگاف پڑنے کا کوئی امکان نہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم نے اس حوالے سے تیاریاں کر لی ہیں۔