بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو بوڑھا ہونے کا کمپلیکس ہے۔ اپنی عمر کے اندراج کے موقعے پر انہوں نے کہا کہ میری عمر 82 سال نہیں ہے صرف 80 سال ہے۔ میں بوڑھا نہیں ہوں۔ کسی کے پاس اس کا دوست مہمان ہوا تو اس نے 42 روٹیاں پکائیں کہ وہ خوب جی بھر کے کھائے۔ دوست خفا ہوا۔ اوئے تو نے مجھے پیٹو سمجھا ہے۔ دو روٹیاں اٹھا لے۔ بس 40 کافی ہیں۔ میں پیٹو نہیں ہوں۔ ایوان صدر میں صدر زرداری نے خاص طور پر اپنے منہ بولے بھائی کو نواز شریف سے ملوایا۔ اویس مظفر ٹپی حاکم علی زرداری کے منہ بولے بیٹے تھے۔ سنا ہے بڑے زرداری صاحب کے سگے بیٹے آصف علی زرداری کے مقابلے میں ٹپی صاحب کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا۔ مقابلہ کرنا تو چھوٹے زرداری کو بہت آتا ہے۔ انہوں نے اپنے والد کا منہ بولا بیٹا اپنا منہ بولا بھائی بنا کے دکھا دیا۔ نواز شریف سے ملاقات کے دوران ساتھ والے کمرے میں ٹپی صاحب کو بلا کر تعارف کروایا۔ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ نواز شریف نے پوچھا کہ آپ زرداری صاحب سے کتنا چھوٹے ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں ان سے 12 سال چھوٹا ہوں۔ صدر زرداری نے بے ساختہ کہا یہ صرف دس سال چھوٹے ہیں۔ دو سال کتنے اہم ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شہباز شریف بھی نواز شریف سے دو سال چھوٹے ہوں گے۔ حیرت ہے کہ صدر زرداری کو ابھی تک یہ خیال نہیں آیا کہ بلاول بھٹو زرداری کی طرح وہ چھوٹے بھائی کو اویس مظفر زرداری بھٹو ٹپی بنا سکتے تھے۔ اسے میڈیا بھی قبول کر لیتا۔ پیپلز پارٹی والے تو قبول کر ہی لیتے۔ بڑی خبر تھی کہ ٹپی صاحب کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا ہے۔ پہلے بھی اصل میں وزیر اعلیٰ سندھ وہی تھے۔ وہ سارا کام چلاتے تھے اپنا کام بھی چلاتے تھے۔ حیرت ہے کہ صدر زرداری نے نواز شریف سے ٹپی صاحب کو ملوایا اور چینی وزیراعظم سے آصفہ بھٹو زرداری کو ملوایا۔ 82 سال بلکہ 80 سال کے قائم علی شاہ نام کے بلکہ برائے نام بلکہ نام نہاد وزیر اعلیٰ تھے۔ سائیں میرے کول تے کوئی اختیار نئیں اے۔ وہ سب کے سامنے برملا بلکہ فخریہ کہتے تھے مگر وزیر اعلیٰ تو وہی کہلاتے تھے۔ پروٹوکول اور سکیورٹی بھی انہیں ملتی تھی۔ پاکستان میں ذاتی پروٹوکول اور سکیورٹی بھی کچھ کم نہیں مگر بڑے بڑے امیر کبیر ممبر اسمبلی بنتے ہیں۔ پھر وزیر شذیر بنتے ہیں اور پھر؟ اب صدر زرداری نے اندر ہی اندر فیصلہ کر لیا تھا کہ میرا بھائی وزیر اعلیٰ ہو گا۔ ان کی بہن فریال تالپور سیاسی طور پر صدر زرداری کے بعد نمبر دو ہیں۔ گورنر ہاﺅس لاہور میں سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نوکروں کی طرح ان کے آس پاس ہوتے تھے۔ سردار اور نوکر ایک وجود میں یکجا ہو کر یکتا ہوتے ہیں۔ سندھ کا وزیر اعلیٰ ہاﺅس تو زرداری فیملی کا ریسٹ ہاﺅس تھا۔ قائم علی شاہ کی حیثیت خادم بلکہ نوکر کی تھی۔ یہ اس سے مختلف ہے جس میں شہباز شریف نے اپنے آپ کو خادم پنجاب کہا مگر کچھ خوشامدیوں نے خادم اعلیٰ بنا دیا۔ اعلیٰ کے لفظ سے کیسی نسبت ان کو ہے۔ اب شہباز شریف کہتے ہیں کہ میں خادم نہیں نوکر ہوں۔ ویسے عام طور پر ملازمت کو نوکری کہتے ہیں۔ ملازم کو افسران ملزم سمجھتے ہیں۔ ہوتا وہ نوکر ہی ہے۔ شہباز شریف نے یہ کہہ کر نوکر کو عزت دی ہے اسے عملی طور پر بھی عزت ملنا چاہئے۔
اب اعلان ہوا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کے طور پر قائم علی شاہ کو نامزد کر دیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ ایم کیو ایم بھی آسودہ رہتی ہے۔ عشرت العباد گورنر ہاﺅس میں بڑے دھڑلے سے ہوتے ہیں۔ اب گورنر سندھ کو نواز شریف کیسے تبدیل کریں گے۔ ایم کیو ایم نواز شریف سے رابطے کر رہی ہے۔ میں محترم قائم علی شاہ کو قبلہ قائم مقام علی شاہ کہتا تھا۔ اب بھی کہوں گا کہ یہ نام ان کے شایان شان ہے۔ خاص طور پر ٹپی صاحب کو بڑی آسانی ہوتی ہے۔ لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ صدر زرداری کی ٹیلنٹڈ بہن ان کی بڑی سیاستدان فریال تالپور نے اپنی حکومت میں ہائی کورٹ سے یہ اپیل کیوں کی تھی کہ انہیں مناسب سکیورٹی مہیا کی جائے۔ یہ کیا سیاست تھی؟ یہ کیا سیاست ہے؟ یہ بھی سیاست ہے اور یہی زرداری سیاست ہے کہ پیپلز پارٹی ہار گئی مگر صدر زرداری جیت گئے۔ فریال تالپور کے علاوہ دوسری بہن ڈاکٹر عذرا افضل اور منہ بولا بھائی اویس مظفر ٹپی بھی جیت گیا ہے۔ ڈاکٹر قیوم سومرو صدر زرداری کا جو بھی ہے منہ بولا ہی ہے۔ وہ سنیٹر تو نہیں بن سکا مگر سندھ اسمبلی کا ممبر ضرور بن سکتا تھا یہ خیال زرداری صاحب اور ٹپی صاحب کو نہیں آیا۔ سومرو بڑے کام کا آدمی ہے۔ زرداری صاحب جیل میں تھے تو وہاں سومرو کا قبضہ تھا۔ وہ ایوان صدر میں تو یہاں سومرو کا قبضہ ہے۔ قیدی اور قائد میں فرق مٹ گیا ہے۔
ایوان صدر میں چینی وزیراعظم کا آنا بابرکت ثابت ہوا ہے۔ صدر زرداری اور نواز شریف کی ملاقات ہوئی۔ ٹپی صاحب کو بھی نواز شریف سے ملوا دیا گیا۔ چودھری شجاعت نے آگے بڑھ کر نواز شریف کو مبارکباد دی پرجوش مصافحہ کیا۔ نواز شریف کو اچھا لگا۔ ایوان صدر میں برسوں بعد ڈاکٹر بابر اعوان بھی نظر آئے نجانے ان کی ملاقات صدر زرداری سے ہوئی کہ نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے بابر صاحب نے کچھ قابل غور باتیں کی ہیں۔ اگلے کسی کالم میں ان کا تذکرہ کروں گا۔ صدر زرداری کو ان پر غور کرنا چاہئے۔