زرداری کی فوج سے رعائتیں لینے کی حکمت عملی

May 25, 2015

اسرا ر بخاری

کیا ذوالفقار مرزا کا یہ دعویٰ مان لیا جائے کہ سہیل انور سیال کو سندھ کا وزیر داخلہ صرف انہیں نقصان پہنچانے کے لئے بنایا گیا ہے عوامی اور سیاسی حلقوں میں اس پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ انہیں اس منصب پر فائز کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف زرداری نے اہم اداروں کے تحفظات کو نظر انداز کر دیا ڈیڑھ سال سے وزارت داخلہ کا قلمدان وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے پاس تھا اور اہم ادارے اس وزارت کا قلمدان وزیر اعلیٰ کے پاس رہنے کو کوارڈینیشن کیلئے بہتر سمجھتے تھے آصف زرداری نے گزشتہ دنوں دو کام ایسے کئے جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انہوں نے کراچی میں آپریشن میں مصروف اداروں کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کر لیا ہے بلکہ ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو پر چھاپہ سے اگلے روز ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت رحمان ملک کا لندن میں الطاف حسین سے ٹیلی فونک رابطہ اور یکجہتی و خیر سگالی کا اظہار، دوسرا اہم اداروں کی کلیرنس کے بغیر سہیل انور سیال کو وزیر داخلہ مقرر کرنا جس پر ایپکس کمیٹی کا اجلاس بھی غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا ہے کراچی کے کور کمانڈر لفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے ملاقات کر کے انہیں اس سلسلے میں فوج کی جانب سے تحفظات سے آگاہ کیا وزارت داخلہ وزیر اعلیٰ کے پاس ہونے کے باعث جو ایپکس کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں فوج کو ان سے رابطے میں سہولت تھی دوسرے پولیس کی کارکردگی میں جو بہتری آئی تھی وہ سہیل انور سیال کے ذریعہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی سیاسی مداخلت کی وجہ سے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے آصف زرداری جن کے نزدیک پورے سندھ میں قائم علی شاہ سے زیادہ قابل اعتماد کوئی شخص نہیں ہے وہ محسوس کر رہے تھے کہ فوجی آپریشن کے دوران اپنی مرضی کے پتے جس انداز سے کھیلنا چاہ رہے ہیں قائم علی شاہ کی بردباری اور فوج سے تعاون کا طرز عمل اس کی فضا پیدا نہیں کر رہا چنانچہ کچھ عرصہ قبل سندھ کے وزیر صحت جام مہتاب ڈہر کو وزیر داخلہ بنانے کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو سکا تھا کہ فوج کی جانب سے ان تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا کہ جو وزیر محکمہ صحت کو صحیح طور پر نہیں چلا سکا وہ وزارت داخلہ جیسے اہم ترین محکمے کے تقاضے بالخصوص موجودہ آپریشن کے دوران کیسے پورا کر سکے گا چنانچہ سہیل انور سیال جیسے غیر معروف شخص کو فوج کی کلیرنس کے بغیر وزیر داخلہ کے منصب پر بٹھا کر آصف زرداری نے جن کا کوئی قدم اپنے مفاد سے ہٹ کر نہیں ہوتا ایک اہم سوالیہ نشان ہے کیا اس کا مقصد فوج کو اس احساس میں مبتلا کرنا ہے کہ کراچی میں جارحانہ سیاست اور الزامات میں لتھڑی ایم کیو ایم قیادت جو عوامی تائید رکھتی ہے اس کے خلاف یا اس میں شامل اور یا اس کی آڑ میں جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی میں یہ تو مخالف ہے یہی اگر پیپلز پارٹی کا تعاون بھی نہ رہا تو اسے آپریشن کی ناکامی کا داغ اپنے ماتھے پر لگوانا پڑے گا لہٰذا یہ احساس فوج کو آصف زرداری کے حوالے سے وہ طرز عمل اختیار کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے جس سے ان کے سیاسی و ذاتی مفادات کا تحفظ ہو سکے، آصف زرداری کو ان دنوں سب سے زیادہ فکر ان میگا کیسز کی ہے ایف آئی اے نے این آر او کے خاتمہ کے بعد جن کی دوبارہ تفتیش شروع کر دی ہے اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان وزیر اعظم کے زرداری کی جانب جھکائو کے باوجود جنہیں منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں کراچی میں تعاون کے بدلے فوج سے کچھ رعائتیں لی جا سکتی ہیں۔ وزیر داخلہ کی حیثیت سے سہیل انور سیال کراچی میں جاری آپریشن کے امور کو اس طرح کنٹرول کریں گے جس سے دیگر اداروں کا اثرو رسوخ کم ہو جائے وزیر داخلہ کی حیثیت سے آپریشن کے معاملات میں ان کی براہ راست شمولیت اور اہم کردار سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ فوج پولیس اور حکومت کا انٹیلی جنس شیرنگ اور وسیع کوارڈنیشن کے باعث آپریشن کے حوالے سے جو بہتر ماحول بن رہا تھا سیاسی عدم مداخلت نے پولیس کے اعتماد اور کارکردگی میں بھی اضافہ کیا تھا کیونکہ وزیر اعلیٰ سے ہر وقت ملاقات اور نہ ہی آپریشن کے حوالے سے حکمت عملی پر ہر کسی کے لئے بات ممکن ہے دوسرے قائم علی شاہ کے لئے آصف زرداری کے ہر قسم کے مفادات کا تحفظ واحد اول ترجیح ہے اس کے باوجود وہ آصف زرداری کو اونچ نیچ سمجھا کر ان کے بعض اقدامات سے باز رکھ لیا کرتے ہیں جبکہ سہیل انور سیال کیلئے یہ ممکن نہیں ہو گا وہ ہر معاملے میں آصف زرداری کی جنبش آبرو کے منتظر رہیں گے، پیپلز پارٹی سندھ کے بعض رہنمائوں کے مطابق آصف زرداری اپنے ماضی کے بہت ’’ قریبی دوست‘‘ ذوالفقار مرزا کانمدہ کس انداز سے کسنا چاہتے ہیں قائم علی شاہ ویسے جارحانہ اقدامات کے لئے پر جوش نہیں تھے آصف زرداری اب سہیل انور سیال کے ذریعہ اپنے ایسے ارادوں کی تکمیل کا سامان کر سکتے ہیں وزیر اعلیٰ کا رابطہ اعلیٰ پولیس افسران سے ہی ہوتا تھا اور انہیں تمام تقرر و تبادلے میرٹ پر کرنے کی سخت ہدایات تھیں جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی مرضی کے مطابق ایس ایچ اوز کے تبادلے اور تعیناتی کا عمل رک گیا تھا وزیر داخلہ مقرر ہونے کے بعد پولیس میں سیاسی مداخلت میں دوبارہ اضافہ ہو جائے جس سے کراچی میں آپریشن اور صوبے میں جرائم پر کنٹرول کے حوالے سے ابھی سے سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے یا نہیں مگر کراچی میں یہ بات زبان زدِ خاص و عام ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے حکومتی شراکت دار بنا کر اور بالخصوص جب متحدہ کے وسیم اختر سندھ میں وزیر داخلہ تھے اپنے وفادار کارکنوں کو بڑی تعداد میں پولیس میں بھرتی کرایا جو متحدہ کے مختلف معاملات میں ملوث افراد کی سر پرستی کرتے رہے ان کے بچائو کا ذریعہ بنے رہے بے شک کراچی آپریشن کو بعض دیدہ اور نادیدہ قوتوں کے ذریعہ مزاحمت کا سامنا ہے، سیاسی مصلحتیں بھی اس مزاحمت کا حصہ ہیں اور ذاتی مفادات بھی اس کے معاون و مددگار ہیں مگر یہ ملک کی سلامتی کا معاملہ ہے اس میں ناکامی کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے پاکستانی عوام کا فرض ہے کہ وہ کراچی آپریشن میں مزاحم ہونے والی قوتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں خواہ ان سے ان کی مذہبی یا سیاسی وابستگی ہی کیوں نہ ہو۔

مزیدخبریں