آئندہ بجٹ ، صنعتی، تجارتی زرعی حلقوں کی توقعات

آمدہ بجٹ کے لئے مختلف صنعتی تجارتی اور زرعی حلقوں کی طرف سے تجاویز ارسال کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ وطن عزیز کی معیشت میں بہتری کے بارے میں عالمی مبصرین کی مختلف رپورٹس بھی سامنے آنے لگی ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا وقار ابھرا ہے اور گوادر بندرگاہ سے ایک باضابطہ شپ منٹ جانے کے بعد پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے سے فائدہ اٹھانے کے لئے وطن عزیز میں بھی سرمایہ کار متحرک نظر آ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبے پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ موجودہ حکومت آئندہ دنوں تیسرا وفاقی بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ بجٹ سے قبل مختلف صنعتی و تجارتی تنظیموں کی طرف سے تجاویز پیش کئے جانے کے علاوہ واضح ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔ معاشی و اقتصادی حلقوں کے مطابق گذشتہ چند ماہ سے ملکی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں جس کی وجہ مسابقتی ممالک کے برابر لیول پلیئنگ فیلڈ کا نہ ہونا ہے۔ وطن عزیز میں توانائی ذرائع کی عدم دستیابی اور ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی بحران کی اہم ترین وجہ ہے۔ اس وقت بھی صنعتکاروں کو بجلی اور گیس کے معاملات میں خام مال سے لے کر پیداواری لاگت کے آخری مراحل تک شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔اس ضمن میں حکومت کو خاطر خواہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ عالمی ادارہ تجارت نے نامساعد حالات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اعداوشمار میں بتایاکہ 2006 تا 2013 کے دوران ٹیکسٹائل کی عالمی تجارت میں پاکستان کا شیئر 2.2 فیصد سے کم ہو کر 1.8 فیصد ہو گیا جبکہ ہمارے مقابلہ میں حریف ممالک کے شیئر میں نمایاں اضافہ ہوا۔ بنگلہ دیش کا شیئر 1.9 فیصد سے 3.3 فیصد، بھارت کا3.4 فیصد سے 4.7 فیصد جبکہ چائنہ کے شیئر 97 فیصد اضافہ سے 27 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد ہو چکا ہے۔ توانائی کی قلت، سرمائے کی عدم دستیابی، ٹیکسوں کے بے جا بوجھ،پیداواری لاگت میں مسلسل اضافے، عالمی مارکیٹ میںعدم مسابقت اور دیگر مسائل کے باعث پیداواری عمل شدید متاثر ہوا اور برآمدی ترقی کی رفتار سست رہی۔جی ایس پی پلس کی سہولت سے برآمدی آرڈرز میں تو اضافہ ہوا مگر ان آرڈرز کی تکمیل کیلئے ضروری ایندھن ہی میسر نہیں ہے۔ حکومت کو بجٹ کے دوران ان عوامل کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ اسی طرح فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی سمیت تین کمپنیوں کی نجکاری کے مجوزہ فیصلے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت نجکاری کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر خصوصی نظرثانی کرے اور آمدہ بجٹ میں اس مد میں رقوم کے حصول کا خواب دیکھنے کی بجائے حکومت کے اخراجات کم کرنے اور آمدن میںہر ممکن اضافے کے لئے پالیسیاں مرتب کرے۔ 

محکمہ تعلیم اور صنعتی شعبہ سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے چھوٹے ملازمین اور مزدوروں کی طرف سے بھی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے لئے حکومت سے پرزور مطالبات اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔ نئے بجٹ کی تیاری کے دوران حکومت کوپے سکیل اور دیگر قانونی مراعات جن کا تذکرہ سابقہ بجٹ میں کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد کرنا ہو گا ۔ حکومت آمدہ بجٹ کے دوران چھوٹے ملازمین اور محنت کش طبقے کو خصوصی مراعات اور ان کی بنیادی تنخواہوں میں اضافہ کے ذریعے ایک عام آدمی کی قوت خرید بڑھاکر ملکی سطح پرغربت میں کمی کر سکتی ہے۔ وفاقی وزیر محنت و افرادی قوت اور ان کے ذیلی دفاتر کو اس سلسلے میں خصوصی طور پر متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ توانائی بحران کی وجہ سے ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں مزدور بے روزگاری کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کیلئے بجٹ میں زیادہ سے زیادہ فنڈ رکھنے ہوں گے ۔ اسی طرح محکمہ تعلیم میں زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرتے ہوئے حکومت کو خصوصی ایکشن پلان بھی مرتب کرنا چاہیے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر بڑے تعلیمی اداروں میں ایچ ای سی اور حکومت کی طرف سے حاصل ہونے والے فنڈز کا ایک بہت بڑا حصہ ان اداروں میں منعقد کئے جانے والے سیمینارز اور فنکشن کی نذر کر دیاجاتا ہے۔ جس سے یہ فنڈزتعلیم کے فروغ پر کم البتہ سالانہ لاکھوں کروڑوں روپے کے بل کھانے پینے اور بوفے کے بلز پر صرف کر دیئے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں وفاقی بجٹ کے بعد حکومت پنجاب کو بھی خصوصی نظرثانی کرنی چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں زیادہ سے زیادہ فنڈز خالصتاً تعلیم اور پروفیسروں اور چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لئے صرف کئے جائیں۔ اگر شعبہ تعلیم میں ملازمین اور اساتذہ خوشحال ہوں گے تو سرکاری سطح پر نہ صرف نچلے طبقے بلکہ اساتذہ کی محرومیوں کو دور کر کے تعلیم و تدریس کے فروغ کیلئے ایک سازگار ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔
حکومت زراعت کے شعبے پر بھی بجٹ کے دوران اپنی توانائیاں صرف کرے۔ پاکستان کی معیشت میں شعبہ زراعت کو قطعی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر معاشی و اقتصادی زاویوں کو نہ بھی دیکھا جائے تو بھی ہمارے ملک کی 70فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے اور اس طرح سے یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ دیہاتی لوگ خواہ ایک ایکڑ یا اس سے کم زمین کے بھی مالک ہوں یا اس کو استعمال کر رہے ہوں تو وہ شعبہ زراعت سے منسلک ہیں ۔یعنی وہ اپنی خوراک سمیت دوسری ضروریات کو اسی شعبہ کی آمدن سے پورا کر رہے ہیں۔ توانائی ذرائع کی عدم دستیابی اور ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے شعبہ زراعت کو بھی شدید بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ حکومت کی طرف سے ہر سال گندم کی کٹائی کے بعد باردانہ کے مسائل ہی دیکھ لئے جائیں اور اسی طرح مونجھی، کپاس وغیرہ کی فصل کے حوالے سے کاشتکاروں کے مسائل کو حل کیاجائے۔ بظاہر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے حکومتی اقدامات صرف اخباری بیانات اور دعوؤں تک محدود ہے اور عملاً ان کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ آج بھی حکومتی عدم توجہی اور متعلقہ انتظامیہ کی غفلت کے باعث بیوپاری حضرات کاشتکاروں کا سارا منافع دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور کاشتکار کی محرومیوں میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف توانائی ذرائع کی قیمتیں چوتھے آسمان سے باتیں کر رہی ہیں دوسری طرف کھاد، بیج وغیرہ کی قیمتوں میں خطرناک اضافہ سب کے سامنے ہے۔ آخر حکومت اس اہم ترین شعبے پر توجہ کیوں نہیں دیتی حالانکہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک زراعت کے بغیر معاشی و اقتصادی طور پر ترقی کی منزلیں طے نہیں کر سکے۔ ہمیں قدرت کی اس عظیم نعمت سے استفادہ کرتے ہوئے شعبہ زراعت کو وسعت اور ترقی دینا ہو گی ۔ یہ محض اللہ پاک کا فضل ہے کہ پاکستان تمام تر بحرانوں اور مسائل کے باوجود آج بھی خالصتاً ایک زرعی ملک ہے اور ہماری زمینوں سے آج بھی کھیتیاں اللہ کے حکم پر پیداوار دے رہی ہیں۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ شعبہ زراعت پر خصوصی توجہ دے اور چند مٹھی بھر وڈیروں کے مفادات کے برعکس کم از کم اس بجٹ میں تو خدارا چھوٹے کاشتکاروں اور زمینداروں کا سوچا جائے۔ 10ایکڑ تک زرعی رقبہ رکھنے والے چھوٹے کاشتکاروں کے لئے خصوصی مراعاتی ریلیف پیکج متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ حالیہ بجٹ سے پہلے حکومت نے بہت سے دعوے اور وعدے کئے کہ حکومت کی کاوشوں کی بدولت ملکی معیشت پھل پھول رہی ہے، افراط زر کم ہوا ہے اور معاشی و اقتصادی معاملات مجموعی طور پر بہتری کی طرف گامزن ہیں لہٰذا حکومت پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے سے وابستہ توقعات پر پورا اترنے کے لئے ایک اچھا متوازن اور عوام ، صنعت، تجارت و زراعت دوست بجٹ پیش کریں۔ بجٹ کے دوران ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھانے کے لئے بھی خصوصی پالیسی سامنے لائی جانی چاہیے اور ایف بی آر کی اس روش کو سیل ٹیکس اور انکم ٹیکس دونوں شعبوں میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر مالی سال کی طرح اس کے اختتام پر نئے آنے والے بجٹ سے پہلے آمدن کا ٹارگٹ زیادہ سے زیادہ ثابت کرنے کے لئے پہلے سے رجسٹرڈ کاروباری اور تنخواہ دار حضرات کو بلا وجہ پریشان کرنے کی روایتی پالیسی کو ترک کرنا ہو گا۔ جس کیلئے سی بی آر کے ان دونوں محکموں میں موجود افسرشاہی اور ملازمین کی زورزبردستی کے خاتمے کے لئے بھی حکومت موثر حکمت عملی مرتب کرے کیونکہ ان محکموں کے ناخداؤں کی روش ہی ٹیکس نیٹ ورک میں اضافے کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...