طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی گزشتہ روز ڈرون میزائل حملے میں ہلاکت نے امریکہ پاکستان تعلقات میں ایک نئی گرہ ڈال دی ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ کے بقول امریکہ پاکستان میں دہشت گردوںکیخلاف کارروائیاں جاری رکھے گا۔ اپنے عوام کو طالبان اور خطرہ بننے والے دیگر افراد اور گروپوں سے بچانا میری ذمہ داری ہے۔ ملا اختر منصور کی ہلاکت سے درحقیقت واشنگٹن اور پینٹاگون کی طرف سے امریکہ کے دشمنوں کو واضح پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ امریکہ کے مطابق ملا اختر منصور طالبان کے ساتھ مثبت مذاکرات کی پیشرفت میں رکاوٹ تھے۔ ان کی ہلاکت پر جہاں امریکہ اور افغانستان خوشی منا رہے ہیں وہاں پاکستان اور ایران میں سفارتی محاذ پر شکر رنجی نے سر اٹھایا ہے۔ پاکستان نے اپنے علاقے میں امریکی ڈرون حملے کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے حسب سابق اس پر احتجاج کیا اور اسے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے جبکہ روس نے پہلی بار امریکی ڈرون حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کی خودمختاری کے منافی قرار دیا ہے۔
پاکستان نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے ہزاروں شہری اور فوجی اس جنگ میں کام آئے اور معیشت کو ناقابل برداشت نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکہ نے اس پہلو کو کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا کہ اس کی نظر ہمیشہ خطے میں اپنے مفادات پر مرکوز رہی۔ یہ امریکی رویہ اور طرز عمل پاکستانی حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک دوست اور اتحادی ملک سے تعلقات میں اس کے روئیے میں دوستی سے زیادہ دشمنی کا رنگ کیوں نمایاں ہے۔ امریکہ دوہرے معیار پر کاربند ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت کی طرف اس کا جھکائو اس امر کا واضح اشارہ ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات سے مخلص نہیں اور نہ ماضی کی طرح اس کی دوستی سے مستقبل میں کسی خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کو اپنی سلامتی اور خودمختاری کو درپیش خطرات کی روشنی میں نئی حکمت عملی ترتیب دینی اور یہ سوچنا ہو گا کہ بار بار کے احتجاج اور تنبیہہ کے باوجود اس کی خودمختاری پر حرف کیوں آ رہا ہے!