اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ آئی این پی) سپریم کورٹ میں میڈیا پر فحاشی سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے پیمرا اور پی ٹی اے کو ہدایت کی ہے وہ قواعدوضوابط اور ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے متعلقہ اداروں کو پابند بنائے اور پیش رفت رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے جبکہ کیس کی مزید سماعت چار ہفتے تک ملتوی کردی۔ عدالت نے پیمرا کی پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کر دیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کچھ ٹی وی چینلز مخصوص فرقوں کو فروغ دے رہے ہیں، ٹی وی چینلز پر پروگرام کرنے کیلئے پیسے طے ہوتے ہیں اور جس کی چاہے پگڑی اچھال دی جاتی ہے، آئین پر عمل کرنے سے بیشتر مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے، میڈیا پر فحاشی پھیلانے کے معاملے کو نہیں چھوڑیں گے اور اسے اس وقت تک اٹھائیں گے جب تک آئین وقانون پر عمل نہیں ہوتا، آئین نے تمام مسائل حل کرنے کے اصول وضع کر دئیے ہیں اب یہ تمام متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے وہ اپنا کام اور آئین کا اطلاق کریں، اصل مسئلہ یہ ہے اداروں کے پاس اختیار تو ہے لیکن وہ اسے استعمال کر نہیں پارہے ریاست اپنے اداروں کی کارکردگی بہتر کرے تو گڈگورننس آجائے اور عدالتوں سے 60فیصد مقدمے خو دہی ختم ہو جائیں گے۔ دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہم گلوبل ویلج میں رہتے ہیں ملک کو اندھیروں میں نہیں دھکیل سکتے اور نہ ہی چاہتے ہیں اسے آہنی پردے کے پیچھے رکھ کر شاہ دولہ کے چوہوں کی طرح رہیں لیکن اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کی اجازت بھی نہیں دیں گے، ضرورت پڑی تو اخلاقیات کی تشریح بھی کرلیں گے، ان کا کہنا تھا دور آمریت میں سر پر دوپٹہ نہ لینے والی نیوز کاسٹرز کو نوکری سے نکال دیا جاتا تھا۔ فحش مواد کی تشہیر کیخلاف جماعت اسلامی کی درخواست پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ جسٹس عظمت سعید کا مزید کہنا تھا ٹاک شوز میں بد زبانی کی جاتی ہے، میڈیا کو تنقید کا حق حاصل ہے لیکن ریڈ لائن پار نہیں کرنی چاہئے، ایسی خاموشی بھی نہیں چاہتے جس سے تنقید کا دروازہ بند ہوجائے، ٹاک شوز پر لوگ آکر بد زبانی کرتے ہیں۔ پیمرا کے وکیل نے بتایا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے ٹی وی چینلز کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔ کچھ کو جرمانہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا مثالی سزائیں ہونی چاہئیں، جرمانوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ سزا ملے گی تو مسئلہ ہو گا۔ پیمرا قوانین پر سختی سے عمل کرے تو معاملات حل ہوسکتے ہیں ۔ایک درخواست گذار نے کہا ہم نے بچوں کو انٹرنیٹ کے جن سے بچانا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے آج انٹرنیٹ کے خلاف بات کر رہے ہیں کل لائبریری کے خلاف بات کریں گے،کیا آپ چاہتے ہیں بچوں کو لوہے کی چادر میں کس کے شاہ دولے کے چوہے بنا دیں۔ وکیل توفیق آصف نے موقف اختیار کیا آرٹیکل 37کی خلاف ورزی ہورہی ہے، عدالت اس کا نوٹس لے۔ چیف جسٹس نے کہا آئین کا اطلاق ہو گا تو مسائل حل ہو جائیں گے لیکن قانون پر سختی سے عمل کرانے کے لئے ادارے اپنا اختیار استعمال نہیں کر پا رہے۔ پگڑی اچھالنے کے لئے پیڈ پروگرام کئے جاتے ہیں، پیسے لے کر دو آدمیوں کو آمنے سامنے بٹھائو اور جس کی چاہو پگڑی اچھالو، اس پر فاضل وکیل نے کہا اس کے لئے قانون میں ترمیم کی ضرروت ہوگی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کسی پر مرضی ٹھونسی نہیں جا سکتی، میڈیا پر جمہوریت کی بساط لپیٹنے، نظریہ پاکستان اور قائداعظم و اقبال کے افکار کے خلاف باتیں ہوتی ہیں، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور فرقہ واریت کو بھڑکایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کچھ چینلز قائم کرنے کا مقصد فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کو فروغ دینا ہے، وہ ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا نظریہ پاکستان اور قائد و اقبال کے افکار کے خلاف باتیں ہوں تو کسی کو پروا نہیں لیکن صرف گانوں کے پیچھے پڑے ہیں، ایک وقت تھا دوپٹہ نہ پہننے پر ایک خاتون نوکری سے فارغ کردی گئی تھی۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ریاست گڈ گورننس لے آئے تو ساٹھ فیصد مقدمات ختم ہو جائیں‘ کچھ ٹی وی چینلز میں فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دی جا رہی ہے۔ ٹی وی چینلز پر پگڑی اچھالنے کیلئے پیسے لے کر پروگرام کئے جاتے ہیں۔