کلمہ حق تو، نوائے وقت کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے اسی لیے تو فرمان رسول ہے کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے جس کا اعتراف صابر سلطان کو بھی کرنا پڑا تھا جب میں نے کلمہ حق کے عنوان سے نوائے وقت میں لکھنا شروع کیا تو جناب مجید نظامی نے اسے سراہا اور پسند کیا۔
پاکستان کے ایک نہایت نامور اورمستند کالم نگار نے میرے کالموں کی تعریف کی اور اعتراف کرنے کے باوجود مجھے نوید سنائی تھی کہ یار تم ترقی نہیں کر سکتے اور پھر انہوں نے ترقی کی منازل طے کرنے کے مستند اور رائج طریقوں کی تفصیل سمجھائی جس پر میں واقعی پورا نہیں اتر سکتا تھا۔ ان میں سے ایک آدھ میں آپ کو بھی بتا دیتا ہوں جن پر میرے ہم عصر سختی سے عمل پیرا ہیں کہ اپنے کالم میں ہمیشہ ہر ایک کی تعریف کرتے ہیں حالانکہ حضور کا فرمان ہے کہ مخلص اور خیر خواہ دوست کو دسرے دوست کی غلطیوں اور کمزوریوں سے آگاہ کرنا چاہیے، تعریف سے آپ نے منع فرمایا ہے کیونکہ تعریف سب اللہ اور اس کے محبوب کی جائز ہے۔ حضور نے فرمایا جب تم تعریف کرنےوالوں کو دیکھو تو ان کے منہ پر مٹی دے مارو، دوسری حدیث میں ہے کہ کسی کی منہ پر تعریف کرنے سے بچو یہ تو اسے ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ (الحج 30) میں ارشاد ہے کہ جھوٹی بات سے اجتناب کرو عبداللہ بن عمر کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص گھر سے نکلتا ہے تو وہ دیندار ہوتا ہے تو وہ ایسے شخص سے ملتا ہے جس کے ساتھ اس کی ضرورت وابستہ ہوتی ہے تو وہ اس غرض سے اس کی بے جا تعریف کرتا ہے کہ وہ اس کی ضرورت کو پورا کردے، تو اس کی اس حرکت سے اس نے اپنے خدا کو ناراض کر لیا۔ اب وہ اپنے گھر کی طرف بے دینی کی حالت میں لوٹتا ہے۔
اللہ مجھے اور آپ کو اس منفی عادت اور حرکت پہ قابو پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اسی لیے سید مظفر علی شاہ کہتے ہیں:
نہ میں پیار کرن دے قابل
نہ لوکاں لئی ڈر ہاں!
نہ میں حسن صلاہون آلا
نہ میں صورت گر ہاں!
نہ میں منزل تے پہنچیا ہویا
نہ میں وچ سفر ہاں!
حیواناں توں مندا جیہڑا
اوہ مردود بشر ہاں
حضرت امام حسنؓ فرماتے ہیں دوست کا عیب اس سے چھپانا خیانت، اور دوسروں کو بتانا غیبت ہے۔ حضرت ابوسلیمان بھی یہی فرماتے ہیں کہ خیر خواہ دوست وہ ہے جو دوست کو اس کی خامی سے آگاہ کرے، صدر زرداری کے دور میں ہمارے ایک دوست اپنے ہر کالم میں زرداری کے فون کا ذکر اس طرح سے کرتے تھے کہ میں ٹریفک میں پھنسا ہوا تھا اور وہ میری مجبوری کو سمجھے بغیر فون پہ فون کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے زرداری سے تعلقات دوستانہ خراب آخر کیوں ہوئے، بقول شاعر ”اس محبت نے تمہیں کیسے ثمر بار کیا میں کہ خود اپنا نہیں اور تمہارے سارے ہمارے ایک اور کالم نگار دوست نے تو مجھے ہی نہیں پورے بہی خواہوں کو چکرا کر رکھ دیا۔ قصیدہ گوئی میں اس قدر آگے کہ جیسے نواز شریف ان کے گھر کے فرد ہوں۔ کبھی مریم نواز، کبھی میاں نواز، کبھی کلثوم نواز غرضیکہ ہر ایک مشہور شخصیت کے ساتھ بے تکلفانہ انداز کی موصوف تصاویر اتروا کر اخباروں میں چھپوانا اپنا مشغلہ سمجھتے ہیں اور اپنی اس دوستی کے صنم کدہ کو کعبہ اور حرمین شریفین کی عطا سمجھتے ہیں۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ نواز شریف کا خاندان کے افراد سمیت پانامہ لیگ میں نام آیا ہے تو انہوں نے دوسرے دن اس قدر اپنے کالموں میں نواز شریف صاحب کے خلاف لکھا کہ جیسے وہ ان کے واقف ہی نہ ہوں اور میں دنیا کی بے ثباتی کے علاوہ دوستی کی بے ثباتی پہ بھی تلملا اٹھا حالانکہ قصیدہ کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ کسی کی تعریف کرنا، اور کرتے رہنا مختصر یہ کہ قصیدہ گوئی کا صلہ اس دنیا میں ملتا ہے اور کلمہ حق کا صلہ دوسری دنیا میں۔ محض صبر، حوصلہ استقامت اور بردباری سے اگر کام لیا جائے تو ضمیر مطمئن رہتا ہے اور اللہ بھی راضی رہتا ہے۔ میں اپنے تئیں ان احباب کی رو داد قلبی و روحانی کی داستانیں، اپنی تحریروں میں لکھنے والوں سے اتفاق نہیں کرتا جو وہ زائر حرمین شریفین یا اولیائے اللہ کے مزارات پر جا کر اپنا راز فاش کر دیتے ہیں کیونکہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان روحانی راز ہوتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ میں ہی تمہارا دوست ہوں، تو پھر حق دوستی ادا کرتے کرتے، راز کو راز ہی رہنے دیا جائے تو میرے خیال میں بہتر ہے کیونکہ اللہ تو دلوں کے راز اور نیتوں کے بھید بھی جانتا ہے۔