وائٹ کالرکرائم اور ہماری سیاست

May 25, 2016

ایم۔ اے سلہری

قائد اعظم محمد علی جناح نے تو رشوت، بد عنوانی اور اقرباء پروری کی لعنت کو آہنی ہاتھوں کے ساتھ ختم کرنے کادرس دیا تھا مگر بدقسمتی سے پاکستان میں یہ سبق کسی نے سنجیدگی سے یاد کرنے کی زحمت گوارہ نہ کی۔یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی اس پاکستان سے محروم ہیں جو بانیء پاکستان کا وژن تھا۔ ۱۹۴۷ء میں دستور ساز اسمبلی نے کرپشن سے نمٹنے کیلئے انسداد بد عنوانی ایکٹ کے نام سے جو پہلا قانون منظور کیا اس کی دو بڑی خامیاں تھیں ایک یہ کہ اس قانون کا دائرہ کار صرف سرکاری ملازمین تک محدود رکھا گیا جبکہ سیاسی کارکن اور راہنماء اس کی دسترس سے باہر رہے۔ حالانکہ قانون کا دائرہ کار اگر وسیع رکھا جاتا تو اس سے مساوی سلوک کا تا ثر ابھرتا جس سے کرپشن کے خاتمے میں خاطرخواہ مدد مل سکتی تھی ۔
انسداد بد عنوانی کے حوالے سے اسمبلی کی جانب سے منظور کئے جانے والے اس پہلے قانون کی دوسری بڑی خامی یہ تھی کہ کرپشن کی کاروائی کیلئے متعلقہ محکمہ کے سربراہ سے پیشگی منظوری کی شرط لازمی رکھی گئی جس کی وجہ سے کرپشن مقدمات صرف ان ملازمین کے خلاف قائم ہو ئے جنہیں اپنے محکمانہ سربراہ کی جانب سے تحفظ نہ ملا اور یوں یہ قانون کرپشن کے باوجود منظور نظر ملازمین کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔
ایوب خاں نے الیکٹو باڈیز ڈسکوالیفیکیشن آرڈیننس ۱۹۵۸ء کے نام سے قانون نافذ کیا جسے’’ ایبڈو،، کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔سات ہزار سے زائد سیاستدان اس قانون کی زد میں آکر پابندی کا شکار ہوئے ۔ تاہم اس قانون کی خاص بات یہ تھی کہ قانون کی زد میں آنے پر مخصوص مدت کیلئے سیاست سے کنارہ کشی کر کے کوئی بھی سیاستدان پراسیکیوشن سے بچ سکتا تھا۔ اب یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں رہتا کہ ’’ایبڈو،، کا اصل منشاء کرپٹ سیاستدانوں کو پراسیکیوٹ کرنا نہیں بلکہ مخالفین کو منظر سے باہر رکھنا اصل مقصد تھا۔ بالکل اسی طرح پبلک اینڈ ریپریزنٹیٹیو آفسز ڈسکوالیفیکیشن ایکٹ ۱۹۴۹ء کا ٹارگٹ بھی ایسے لوگوں کو سیاسی منظر نامے سے باہر رکھنا تھا۔احتساب ایکٹ ۱۹۹۶ء کے تحت کرپٹ عناصر کی پراسیکیوشن کیلئے احتساب کمشن کا قیام عمل میں لایا گیا اوران کے خلاف مقدمات کی تفتیش کیلئے ۱۹۹۷ء میں احتساب بیورو بنایا گیا۔ اگرچہ صدر وزیر اعظم جیسے بلند مرتبہ سیاستدان بھی اس قانون کی دسترس سے باہر نہیں تھے ۔تاہم زمینی حقائق سے پہلو تہی ممکن نہیں ۔ظاہر ہے اتنے بلند مرتبہ اور طاقتور لوگوں کو پراسیکیوٹ کرنا کس ماتحت افسر کیلئے ممکن تھا۔لہٰذا اس قانون کی زد سے بھی سابقہ بلند مرتبہ سیاسی مخالف محفوظ نہ رہ سکے۔
قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس نکلوانا یا شفاف طریقے سے کرپشن کے جرم میں بڑی مچھلیوں کو پراسیکیوٹ کرنا ان قوانین کا منشاء نظر نہیں آتا۔البتہ پرویز مشرف کا جاری کردہ قومی احتساب بیورو آرڈیننس ۱۹۹۹ء کسی حد تک اسلئے جامع نظر آتا ہے کہ اس میں قوم کی لوٹی ہوئی دولت کی وصولی قانون کی اصل ترجیح نظر آتی ہے۔ اگرچہ پلی بارگین کی شق کبھی بھی تنقید سے مستثنیٰ نہیں رہی مگر اعلیٰ عدلیہ کے جج کے برابر چئیرمین نیب کے قانونی تحفظ سے اس قانون کی شفافیت ظاہر ہوتی ہے۔اگر اسے ہٹانے کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل نے کرنا ہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا تحفظ ہو سکتا ہے۔یہ تحفظ ہی تو ہے جس کی بنا پر عدلیہ آزادانہ فیصلے صادر کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔لہٰذا پرویز مشرف کے بنائے گئے اس قانون میں نیب کی غیر جانبدارانہ کاروائی کی صلاحیت شکوک وشبہات سے بالا نظر آتی ہے۔ اور اس قانونی تحفظ کی موجودگی میں نیب کا ادارہ کسی بھی بڑی مچھلی کو نہ صرف ہاتھ ڈالنے کی طاقت کا حامل ہو جاتاہے بلکہ اس کا انتقامی مقاصد کیلئے استعمال بھی ناقابل فہم نظر آتا ہے۔ مگر مصالحت کی فضاء کے نام پراین ۔آر۔او ۲۰۰۷ء جاری کر کے مشرف حکومت نے انسداد بدعنوانی کی نسبتاً شفاف کاوش پر کاری ضرب لگا دی۔ این۔ آر ۔او کے سبب پیپلز پارٹی کی قیادت سمیت آٹھ ہزار سے زائد بڑی مچھلیوں کے زمرے میں آنے والے لوگ مستفید ہوئے۔یوں احتساب کا سارا نظام ایک بار پھر سیاست کی نذر ہو کر رہ گیا۔ ۲۰۰۹ء میںجب سپریم کورٹ نے این آر او کو کالعدم قرار دیدیا تو سارے مقدمات بحال ہو گئے مگر قومی دولت لوٹنے کے جرم میں ملوث بڑی مچھلیوں کے احتساب کا خواب شرمندہء تعبیر نہ ہو سکا۔اور بڑے مجرم معقول شہادت کی عدم دستیابی کی بنا پر سزاء سے بچنے میں کامیاب ہوگئے۔ جسٹس جمشید کمشن کی رپورٹ تین سال قبل آئی جس میں اربوں روپے کی رقوم کے قرضے معاف کروانے والوں سے ریکوری کی سفارش کی گئی اور اس حوالے سے پارلیمان کے ذریعے مطلوبہ قانون سازی کی بھی تجویز دی گئی مگرقوم کی اس ہڑپ شدہ دولت کی ریکوری کیلئے کہیں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آئی۔اب حکومت کی طرف سے عندیہ دیا جا رہا ہے کہ قرضے معاف کروانے والوں کی ایف آئی اے اور نیب کے ذریعے تفتیش ہوگی تاکہ قرضے معاف کروانے کا جواز معلوم ہو سکے۔جمشید کمشن رپورٹ کی موجودگی میں مزید تفتیش ناقابل فہم ہے ۔کیونکہ مناسب تو یہ ہے کہ پہلے اس رپورٹ پر عملدرآمد ہو اور باقی ماندہ ڈیفالٹرز کے لئے جو چاہیں سکیم بنائیں۔ حکومت کی طرف سے آف شور کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے نظام لانے کا عندیہ بھی دیا جا رہا ہے۔
حکومت ایسا کرنے کا بجا طور پر اختیار رکھتی ہے۔مگر اس حوالے سے قوم کی بھی توقع ہے کہ اگر ان مقاصد کی خاطر حکومت کی جانب سے کوئی پیشرفت ہوتی ہے تو اس میں قومی مفاد کے تحفظ کے ساتھ ساتھ شفافیت کے پہلوپر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔کیونکہ قوم سمجھتی ہے کہ ملک میں غربت کی اصل وجہ وائٹ کالر کرائم کی لعنت ہے جس کی ذمہ دار ہماری سیاست ہے اور اگر ہم اس لعنت کے خاتمے میں مخلص ہیں تو ہمیں اس کا عملی ثبوت دینا ہوگا جو ٹیکس بچائو تدبیر، قرضہ معاف سکیم یا انسداد احتساب سیاست سے ممکن نہیں۔

مزیدخبریں