سرکاری اداروں کارپوریشنوں نے قرض لینے میں حکومت کو پیچھے چھوڑ دیا۔ 30 فیصد اضافے سے ایک سال میں 262 ارب 80 کروڑ کے نئے قرض سے قرضوں کا مجموعی حجم تاریخ کی بلند ترین سطح 15 کھرب 13 ارب پر پہنچ گیا۔
اس چشم کشا رپورٹ سے کم از کم قرضوں کے اجرا کے حوالے سے حکومت کی گڈگورننس کے دعوﺅں کی قلعی کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ سرکاری ادارے اور کارپوریشنیں کس طرح بے دردی کے ساتھ قرضوں پہ قرضے حاصل کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے بھاری قرضے حاصل کرنے والے سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں میں وہ ادارے سرفہرست ہیں جو مسلسل خسارے میں جا ر ہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پی آئی اے سب سے بڑا مقروض ادارہ ہے جس نے ایک سال کے دوران 39 ارب روپے کا قرضہ حاصل کیا جس سے اس کا قرض148 ارب روپے سے بڑھ گیا ہے۔ دوسرے نمبر پر واپڈا کا ہے جس نے 38 ارب کا مزید قرض لیا اس کے قرض کا حجم 124 ارب روپے ہے۔ تیسرا نمبر سٹیل ملز کا ہے جس کے قرض کا حجم 43 ارب 20 کروڑ ہے۔ حکومت یہ قرض اپنے خزانے سے ادا کرتی ہے۔ جس کو بھرنے کے لئے اوران اداروں کو قرضے فراہم کرنے کے لئے خود حکومت کو بیرونی قرضے حاصل کرنا پڑتے ہیں۔ جو پاکستان کو بمع سود ادا کرنے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔ اس مسئلے کا بہترین حل یہی ہے کہ جو ادارے اور کارپوریشنیں قرض حاصل کرتے ہیں وہ اس کی واپسی اور ادائیگی کا انتظام بھی خود کریں تاکہ ملکی خزانے پر بوجھ کم ہو سکے۔ یا پھر ان تمام اداروں ا ور کارپوریشنوں میں چیک اینڈ کنٹرول کا نظام سختی سے نافذ کر کے ان کے غیر ضروری اخراجات پر قابو پایا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر مجبورًا یہ ادارے نجی شعبوں کے حوالے کرنا پڑیں گے۔ چین سے دوستانہ تعلقات کے سبب حکومت پاکستان نے ایک ارب ڈالر کا جو قرضہ حاصل کیا ہے اس سے ملکی معیشت کو کچھ سنبھالا تو ملا ہے مگر جب تک ہم اندرون ملک ان سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں کے بڑھتے ہوئے قرضوں کے حجم سے نجات نہیں پاتے ملکی معیشت کے استحکام کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔
سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں کے بڑھتے ہوئے قرضے
May 25, 2018