سب تحصیل خان بیلہ ،ضلع رحیم یارخان کا ایک تجارتی مرکز مگر اس شہر کو درپیش مسائل کا حل عشرے گزرنے کے باوجود نداراد ،نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو پاکستان کی شاہراہیں تعمیر کر کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا لیکن خا ن بیلہ کے عوام کو ریلیف کی بجائے مسائل کی بھٹی میں جھونکنے کا انو کھا کارنامہ بھی این ایچ اے کے سر جاتا ہے ،خان بیلہ شہر کے وسط سے گزرنی والی موٹر وے کی تعمیر کے دوران بائی پاس کا منصوبہ ختم ہونے کے باعث گذشتہ 15سال سے یہ شاہراہ خونی دریا کا منظر پیش کررہی ہے ،جس پر ہونیوالے آئے روز حادثات کے باعث شہری اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے تھے کہ NHAحکام نے تقریباً 1کروڑ روپے کی خطیر رقم سے سٹیل کے منصوبے کا آغاز تقریباً6ماہ قبل شروع کرایا جس کا ٹھیکہ مبینہ طور پر ایک کمپنی کو ملا جس نے پل کی تعمیر کی خاطر بھاری بھر کم سکریپ لاکر موٹروے شاہراہ پر ڈال کر گورنمنٹ بوائز ہائیر سکینڈری سکول کے گیٹ کے سامنے پل کی تعمیر کا آغاز کیا گیا ،جو کہ ایک ماہ کے دوران تقریباً نصف تعمیر ہوا توٹھیکیدار اچانک کام چھوڑ کر غائب ہو گیا ،اور بھاری بھرکم سکریپ روڈ پر پڑا دن اور رات میں موٹر سائیکل سواروں کیلئے پیش خیمہ ثابت ہونے لگا ،جبکہ سکول سے چھٹی کے بعد نکلنے والے ہزاروں معصوم بچے بھی اس سڑک اور فٹ پاتھ پر پڑے اس سکریپ سے ٹکرا ٹکرا کر زخمی ہونے لگے ،گزشتہ کئی ماہ کے دوران درجنوں شہری روڈ پر پڑے اس سکریپ سے ٹکرا کر زخمی ہوکر ہسپتال پہنچ رہے ہیںلیکن اس پل کی تعمیر مکمل کرنے یا سڑک پر پڑے سکریپ کو اٹھوا کر سائیڈپر رکھوانے کی زحمت تک این ایچ اے حکام کو گوارا نہیں ۔
اسی طرح خان بیلہ شہر کے وسط سے گزرنے والی نہر 4LRکے مشرقی کنارے کے قریب ہی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے موٹروے کی شکل میں دو رویا سڑک تعمیر کی گئی ،جس کی وجہ سے نہر کا مشرقی کنارہ اور سڑک کے درمیان آنیوالا تقریباً1کلومیٹر لمبا رقبہ کمرشل ہو گیا ،جس پر اچانک راتو ں رات بااثر مافیاز نے دکانیں تعمیر کرنے کے علاوہ ان کے اوپر کمرشل رہائشی فلیٹ تعمیر کر لیے ،اس تعمیر کے دوران نہ ہی NHAکے حکام نے کوئی مداخلت کی بلکہ انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق حصہ بقدر جثہ کے مطابق ان دکانیں تعمیر کرنے والے افراد سے مٹھائی کے نام پر لاکھوں روپے رقم بٹوری جاتی رہی،جبکہ اسی مافیا نے کھاتہ مشترکہ کی آڑ میں انتقالات ورجسٹریاں کراکے اپنے اس قبضہ کو قانونی حیثیت دیکر ہر آفیسر کو مطمئن کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا ہے جبکہ این ایچ اے کے مقامی آفیسران نے اپنی فائلیں فرضی نوٹسوں سے بھر کر اعلیٰ حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے تقریباً 2ارب روپے مالیتی اس سرکاری کمرشل اراضی کو مافیا کے ہاتھوں بیچ رکھا ہے ،اور ان محکموں کی جانب سے آج تک بلڈوزر لگاکر یا مجسٹریٹی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان تجاوزات کو گرانے کا خیال تک نہیں آیا ،اور کاراسٹینڈ ،لاری اڈے تک قائم ہو چکے ہیں جب بھی محکمہ کی جانب سے تجاوزات کے خلاف مہم کے احکامات موصول ہوتے ہیں تو NHAکے ڈپٹی ڈائریکٹر رحیم یار خان اپنے عملہ کیساتھ خان بیلہ آکر محض غریبوں کے چھپرے او رپٹھے گراکر اپنے کاروائیاں ڈال کر اعلیٰ حکام کو مطمین کر دیتے ہیں ،جبکہ موٹر وے روڈ کے مشرقی کنارے بھی قبضہ مافیا کے پنجے تلے آچکے ہیں وہاں پر بھی غیر قانونی اڈے ،پھٹے اور کھوکھوں سمیت ریڑھیوں کو کھڑا کر کے منی مارکیٹیں بنائی جا چکی ہیں مگر این ایچ اے کے مقامی آفیسران خاموش تماشائی بنے خان بیلہ کی عوام کو حادثات کا ایندھن بنا رہے ہیں