اُسے کہہ دو کسی کے ہجر میں مرتا نہیں کوئی

جذبات و احساسات کا خوب صورت اظہار شاعری اور جب شاعری باطن کا سفرکرتے ہوئے وہ کیفیت اختیار کر لے کہ باطن کے دُکھ کی ہر کروٹ نہ صرف دل و دماغ کے لیے جراحت افزا ثابت ہو بلکہ اکثر اوقات اس کی شدت سے ’’حواس‘‘ تک پگھلنے لگیں۔ پانچ مئی محسن نقوی کا یومِ ولادت ہے ا ور اس کی اس شاعری کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے جو جذبہ خیال کی غیر مرئی سرحدوں کو چھو لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
غمِ فراق کے ماروںکو نہ چھیڑ اے محسن
زبان کھلے گی تو لفظوں سے لہو ٹپکے گا
کوئی بھی فنکار جب تنِ تنہا تخلیقی محسوسا ت کے عمل سے گزر کر شدید پختگی، تجربے کی گہرائی اور جذبہ و خیال کی ہم آہنگ سچائی کو لفظوں میں مقید کرتا ہے تو وہ شاعری جنم لیتی ہے جو بھرپور توانا ہوتی ہے اور سچے جذبوں کی عکاسی کرتی ہے۔ پھر اس شاعری کی آواز اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ آوازِ ہجومِ ہمسفراں میں اپنی پہچان نہیں کبھی پاتی۔ یہی وہ مقامِ معرفت ہے کہ جہاں اشیاء کی حقیقت چہرے سے نقاب ہٹا کر فنکار پر کشف کے باب کھول دیتی ہے۔ محسن نقوی قلوب کے مکاشفہ کا فن جانتے تھے اور انہوں نے بڑی خوب صورتی سے اسے صفحہ قرطاس پر اتارا
اُلجھا رہی ہے مجھ کو یہی کشمکشِ مسلسل
وہ آ بسا ہے مجھ میں یا میں اس میں بس گیا ہوں
ایک اورجگہ لکھتے ہیں …؎
آتا ہے کون کون میرے غم کو بانٹنے
محسن تو میری موت کی افواہ اڑا کے دیکھ
محسن کے ہاں ایقان و اعتماد کی خمار آلود فضا بھی ہے۔ گداز پن بھی ہے۔ شکایت بھی ہے، محبت بھی ہے ا ور بعض اوقات تو وہ وفا اور بے وفائی کے بیچ رستے پرکھڑے آس اور اُمید کی منڈیروں پر دیا جلائے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ہاں زندگی کا فلسفہ مشاہدے اور تجربے میں ڈھلا ہوا ہے۔ ہر لفظ گنجینہِ معنی کا طلسم ہے تو ہر استعارہ ابروئے ہستی کا اشارہ ہے۔ …؎
تمام عمر ترا منتظر رہا محسن
یہ اور بات ہے رستہ بدل بھی سکتا تھا
تلخئی زمانہ اور تنہائی کے ملاپ سے ایک نیا انداز، نئی جہت اُن کے ہاں پنپتی نظر آتی ہے۔ …؎
خودبخود چھوڑ گئے ہیں تو چلو اچھا ہوا
اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے
وہ خود کہتے ہیں کہ ’’میں قلم کی نوک کو ضمیر آدم کی زبان سمجھتا ہوں اور فن کی شریعت میں جھوٹ بولنا میرے نزدیک ایسا گناہ ہے جسے نہ تنقید برداشت کر سکتی ہے اور نہ تاریخ میں روایت کا منکر ہوں نہ جدت کا باغی بلکہ یوں ہے کہ میرے پائوں ماضی کی سنہری خاک میں دھنسے ہوئے ہیں اور سر مستقبل کی روشن خلائوں میں ہے۔اس لیے میری شاعری میں دونوں زمانوں کا ذائقہ ہے۔ محسن نقوی کے لہجے میں کڑواہٹ اور مٹھاس دونوں کا ملاپ ہے۔ ہجر اور وصال کے جواںاور تروتازہ جذبے ہیں … ؎
ترستا ہے، سسکتا ہے تڑپتا ہے مگر محسن
اُسے کہہ دو کسی کے ہجر میں مرتا نہیںکوئی
ایک اور جگہ کہتے ہیں۔…؎
ہم بھی غالب کی طرح کوچہ جاناں سے
نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے
محسن نقوی کے ہاں وہ خواب ہیں جو نیندیں جلا کر جاگنے پر مجبورکر دیتے ہیں۔ اُن کا سفر کئی زندگیوں پرمحیط ہے۔ وہ زندگی جو آمادہِ سفر رکھتی ہے۔ وہ زندگی جو تھک جاتی ہے۔ وہ زندگی جو محبوب کے وصال سے سرشار ہوتی ہے اور وہ زندگی جو ہجر کے زہریلے دکھ کو چکھتی ہے اور وہ دکھ رگ و پے میں سما جاتا ہے۔
وجود اس کا بھی اشکوں میں ڈھل گیامحسن
میں اسکے سامنے محسن ہنسا ہی ایسے تھا
محسن نقوی کے ہاں غیب سے مضامین آتے ہیں۔ ’’صریر خامہ‘‘ نوائے سروش میں ڈھلتی ہے۔ یہ صورتحال اپنی ہئیت کے اعتبار سے ایسے ’’فن پارہ‘‘ کی شکل میں نمو پذیر ہوتی ہے جو زمان و مکان کی خود ساختہ حدود سے ماورا اورماہ و سال کی گرد سے محفوظ ہوتاہے۔ …؎
خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے محسن
میں یوں بھی پھول تھا آخر مجھے بکھرنا تھا

ای پیپر دی نیشن