اسلام آباد (وقائع نگارخصوصی)پنجاب میں بارہ ڈیم بن رہے کہ جبکہ ستاون ڈیم بنا لئے اس بات کا انکشاف پنجاب کے صوبائی وزیر آبپاشی نے مجلس قائمہ برائے آبی وسائل میں کیا ۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل نے سندھ پنجاب میں پانی کی تقسیم کے معاملے پر ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی جبکہ چیئرمین کمیٹی نواب محمد یوسف تالپور کا کہنا تھا کہ تمام نہروں پر انسپکٹرز تعیناے ہونے چاہئیں۔سندھ اور پنجاب ارسا کے ساتھ مل کر پانی کے نقصانات کا مسئلہ دیکھیں ۔ پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا نواب محمد یوسف تالپور کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا۔ وزارت آبی وسائل کے جوائنٹ سیکرٹری مہر علی شاہ نے کہاکہ کہ کئی مرتبہ پنجاب کو منصوبوں سے متعلق کہامگر پنجاب کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔وفاق نے پنجاب کے تمام منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کی سفارش کر دی ہے۔قائمہ کمیٹی نے چراح ڈیم منصوبے کا پی سی ون مانگ لیا۔کمیٹی کو وزیر آبپاشی پنجاب نے بتایا کہ بارہ ڈیم بن رہے ہیں ستاون چھوٹے ڈیم بنا چکے ہیں۔چراہ ڈیم کی اکنامک وائبلٹی نہیں تھی۔وزارت آبی وسائل کے حکام کا کہنا تھا کہ ٹیلی میٹری کی ٹیکنالوجی اور تنصیب کے مقامات کے لئے سٹڈی کرائی جائے گی۔ چئیرمین ارسا راو ارشاد علی کا کہنا ہے کہ جب زرعی مقاصد کے لیے پانی کم ہے تو کوٹری بیراج سے پانی کیوں خارج کریں۔چیئرمین ارسا کا کہنا تھا کہ دس جون تک مجموعی طور پر پانی کی قلت سترہ فیصد تک ہوگی۔ہم نے پانی کی قلت کو مناسب طریقے سے تقسیم کرناہے۔گدو سکھر بیراج پر پانی کی کم رپورٹنگ کی جارہی۔ ممبر ارسا سندھ کا کہناتھا کہ مجھے پانی کی رپورٹنگ کے وقت اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ وزیر آبپاشی پنجاب کا کہنا تھا کہ پانی کی قلت کے معاملے کو تکنیکی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔اس معاملے پر سیاست کرنے سے مسئلہ زیادہ خراب ہوگا۔