کاش کہ حکومت کو احساس ہو جائے!!!!!

 وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں احساس پروگرام کو چوتھا کامیاب ترین پروگرام قرار دیا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران کمزور طبقہ سب سے متاثرہوا اس دوران کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آئے۔ پاکستان کی بیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔احساس پروگرام میں ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے مستحق افراد کو امداد دی گئی۔ اس پروگرام میں اب تک کوئی سیاسی وابستگی سامنے نہیں آ سکی، ابھی تک کوئی ایسی شکایت نہیں ملی کہ پروگرام کے تحت کسی کو سیاسی بنیاد پر فائدہ یا نقصان پہنچایا گیا ہو۔
عمران خان ملک کے وزیراعظم ہیں وہ کچھ کہتے ہیں تو کم از کم سننا ضرور چاہیے۔ عوامی فلاح و بہبود کا کوئی بھی پروگرام ہو اس سے کسی نا کسی صورت میں کم آمدنی والے افراد کو فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔ احساس پروگرام کے ذریعے بھی اگر غریبوں کی مدد ہوئی ہے تو اچھی بات ہے۔ غربائ￿  کی مدد سیاسی بنیادوں پر کرنا یا مدد کے نام پر کرپشن کرنا تو مجرمانہ فعل ہے بدقسمتی سے پاکستان میں ہر سیاسی حکومت یہ کام کرتی رہی ہے۔ خواہش ہے کہ احساس پروگرام میں ایسا کچھ نہ ہو جس سے سابق حکمرانوں کی جھلک نظر آئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے منصوبوں میں کیس درج ہونے کے مخصوص وقت ہوتے ہیں پروگرام پھیل جائے تو پھر اس کے مختلف پہلوؤں کو دیکھ کر مختلف زاویوں سے کام ہوتا ہے اور پھر جہاں کہیں گڑبڑ نظر آتی ہے ادارے اس پر کارروائی کرتے ہیں۔ احساس پروگرام دنیا میں چوتھے نمبر پر آئے یا اس سے بھی بہتر درجہ بندی میں چلا جائے ہمیں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ دیکھنا ہو گا کہ اس پروگرام نے کتنے فیصد لوگوں کی زندگی کو بدلا ہے۔ کرونا کے مشکل دنوں میں لوگوں کو حکومتی مدد کی ضرورت تھی، حکومت نے مالی اعتبار سے کمزور افراد کی مدد کر کے بہتر کام کیا لیکن کیا حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ اپنے لوگوں کو کس طرح اس قابل بنانا ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کے لیے حکومت کی طرف دیکھنا پڑے۔ اگر وزیراعظم خود اعتراف کرتے ہیں کہ ملک کی بیس فیصد آبادی غربت سے نیچے ہے تو پھر یہ اعدادوشمار خطرناک ہیں۔ ایسے کاموں میں سرکاری اعدادوشمار پر ہمیشہ سوالات اٹھتے ہیں۔ یہ بیس فیصد تو وہ ہیں غربت کی لکیر سے نیچے ہیں یعنی کم تر آمدن سے بھی نیچے ہیں۔ اس پیمانے پر بات کی جائے تو پچاس فیصد سے زیادہ لوگ  کم آمدنی کی وجہ ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ بیس فیصد کم تر آمدنی والے ہیں، بیس فیصد ان سے تھوڑا بہتر ہوں گے، پندرہ بیس فیصد اس سے بہتر ہوں گے یعنی کم از کم ہچاس فیصد آبادی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ دو وقت کی روٹی ہے، بہتر طرز زندگی، معیاری زندگی، اچھی صحت، اچھی سفری سہولیات، وحت کی اچھی سہولیات اور تعلیم کی اچھی سہولیات سے ان لوگوں کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا حکومت کے پاس ان پچاس فیصد لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے، ان کی آمدن بڑھانے، طرز زندگی کو بلند کرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔ یقیناً نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ ہم اس قابل ہی نہیں ہیں کہ اس پہلو پر سوچیں، کوئی پیپر تیار کریں، اتفاق رائے پیدا کریں اور کوئی انقلابی کام کر سکیں۔ ہم صرف اور صرف نعروں، وعدوں اور بیانات کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں، اگر اس سے بڑھ کر کچھ کرتے ہیں تو کم آمدنی والے افراد کے لیے چند ہزار روپے ماہانہ کا کوئی منصوبہ شروع کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ معمولی رقم سے لوگوں کی معمولی مدد مدد تو کی جا سکتی ہے لیکن اس عمل سے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ حکمران ہر دور میں مالی مدد سے غربت کم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ دراصل ہمیں لوگوں کو تعلیمیافتہ اور ہنر مند بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں لوگوں کی بڑی تعداد کو خیراتی پیسوں سے نکال کر ان کے لیے باعزت روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ ہمیں یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ لوگوں کو چند ہزار روپے دے رہے ہیں، ہمیں یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہونا چاہیے کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت ملک میں کم آمدنی والوں کی مدد کے لیے حکومت سے تعاون کرتے ہیں، حکومت نے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں کہ لوگ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو رہے ہیں۔ ہم تو غریب گن رہے پیں اور ہر گذرتے دن کے ساتھ غریبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور جس غیر سنجیدہ انداز میں وزرائ￿  کام کر رہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے کسی علط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ غربت کم ہو جائے گی۔ 
سب سے بہتر کام یہ ہے کہ حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرے، کم از کم تنخواہ فوری طور پر بڑھائے، کم سے کم کتنے پیسوں میں گھر چلایا جا سکتا ہے اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیکر کم سے کم تنخواہ میں اضافہ کیا جائے۔ لوگوں کی سب سے بڑی مدد انہیں ہنرمند، عیرت مند اور ذمہ دار بنانا ہے۔ لوگوں کی آٹا وصول کرتے، کھانا لینے کے لیے طویل قطاروں میں لگنا، تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں گاڑیاں دھونا یا چائے کے برتن اٹھانا، یا پھر پیٹرول پمپ پر کام کرنا یہ سب مناظر تکلیف دہ ہیں۔ حکومت جب تک ان پہلوؤں پر غور نہیں کرے گی دیرپا کامیابی ممکن نہیں ہے۔ ذرائع آمدن، قوت خرید بڑھانے کی طرف کام نہیں کیا جائے گا تو کسی منصوبے کا کوئی فائدہ نہیں۔
وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر کہتے ہیں کہ "پیپلز پارٹی کی پالیسی ہے نہ کام کریں گے نہ کرنے دیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ وقت چاہیے اسے  یہاں پچاس سال ہو گئے ہیں،دوسروں کو کام کرنے سے روکنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی". وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتی یا سندھ حکومت انہیں نظر انداز کرتی ہے تو اس میں طعنے مارنے کی ضرورت نہیں وفاق کے پاس سارا ملک پڑا ہے وفاق دیگر صوبوں کے عوام کی خدمت کرے ان کے مسائل ختم کرنے کی کوشش کرے انہیں کون روک رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی حکومت کے تین سال میں شروع کیے گئے اور مکمل ہونے والے منصوبوں کی تفصیل عوام کے سامنے رکھیں تاکہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ کس نے کتنا کام کیا ہے اور کس نے کسے روکا ہے۔

ای پیپر دی نیشن