وہاڑی کو پنجاب کا خوبصورت ترین اور مالیاتی طور پر مستحکم ضلع سمجھا جاتا تھا لیکن پچھلے کئی سالوں سے بلدیاتی نظام کے عدم تسلسل ا ور بیور کریسی کی روائتی ہتھکنڈوںکی وجہ سے وہاڑی کا حسن نہ صرف گہنا گیا ہے بلکہ مالیاتی استحکام اس حد تک ختم ہو چکا ہے کہ صفائی ستھرائی کیلئے میونسپل کمیٹی کے پاس سٹاف رکھنے کے فنڈز دستیاب نہیں جو کہ ایک تشویش ناک صورتحال ظاہر کرتا ہے بد قسمتی سے یہ وفاق پرست اور جمہوریت کی علمبردار ہونے کی دعویدار سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آنے کے بعد بلدیاتی نظام کو اپنا دشمن تصور کرتی ہیں حالانکہ بلدیاتی نظام جمہوریت کی اساس ہی نہیں بلکہ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی اور خوبصورتی نکھارنے کا ذریعہ ہے 1925میں جب وہاڑی شہر کی ایک انگریز کے ہاتھوں بنیاد رکھی گئی تو وہاڑی شہر چند بلاک پر مشتمل ایک انتہائی خوبصورت شہر تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد برسراقتدار آنے والے سیاسی ٹولوں اور نا اہل موقع شناس بیورو کریسی نے ایسے ایسے گل کھلائے کہ وہاڑی کو خوبصورت کہنا ہی خوبصورتی کی توہین محسوس ہوتا ہے اس خوبصورتی کو قائم رکھنے میں۔
اگرچہ شہریوں کا بھی بنیادی کردار ہوتا ہے لیکن شہریوں کو ایک قانون اور ضابطہ کے ذریعے کسی نقطہ پر متحد و یکجا رکھا جاتا سکتا ہے قانون اور ضابطہ کی تمام عملداری بیوروکریسی کی ہوتی ہے لیکن کاسہ لیس بیوروکریٹ محض اپنی کرپشن کو بچانے کیلئے قانون اور ضابطوں کا کھلے عام قتل کرتے ہیں جس سے معاشرہ میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس وقت وہاڑی شہر ایسی ہی خرابیوں کامرکز بن گیاہے ناجائزتجاوزات نے تمام شہرکا نہ صرف حلیہ بگاڑ دیا ہے بلکہ پیدل چلنے والوں سے ان کے چلنے کا حق تک چھین لیاگیا ہے۔
کلب روڈ ،جناح روڈ کارخانہ بازار ،ملتان روڈ اس کے علاوہ اندرون شہر کی تمام شاہرات اہم ترین گذرہیں جہاں پرتجاوزات اس قد بڑھ چکی ہیں کہ 100فٹ کی سڑک 20فٹ رہ گئی ہے جس پر گاڑیوں ،رکشوں ،موٹر سائیکل اور ریڑھیوں کا اس قدر رش ہوتاہے کہ پیدل چلنے والے سخت اذیت کا سامنا کرتے ہیں دوسری جانب ٹریفک کی روانی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے 2سال قبل ضلع کے ایک سربراہ نے مقامی تاجر تنظیم کی خوشنودی کیلئے دکانداروں کو فٹ پاتھوں پر 5فٹ تک قبضہ کی اجازت دے دی تھی یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس میں تجاوزات کو قانون کی چھتری فراہم کر دی لیکن اس فیصلہ کے نتیجہ میں تمام دوکانداروں نے فٹ پاتھوں پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیا اور اب کوئی فٹ پاتھ نظر نہیں آتی اس طرح بلڈنگ بائی لاز کی پرواہ کئے بغیر شہر بھر میں کمرشل عمارتیں اور پلازے تعمیر کئے جا رہے ہیں جن میں نہ تو ہنگامی حالات سے نمٹنے کا کوئی انتظام ہے نہ ہی پارکنگ رکھی گئی ہے اور نہ ہی ماحولیاتی اثرات کا کوئی جائزہ لیا گیاہے ان تمام امور کی نگہداشت کرنا اور بائی لاز کا خیال رکھنا میونسپل کمیٹی کے افسران کی ذمہ داری ہے انہوں نے کبھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا تو درکنار محسوس بھی نہیں کیا اور بہت حد تک ممکن ہے کہ انہیں فرائض کا علم ہی نہ ہو انٹی انکروچمنٹ کا عملہ صرف کاغذوں میں کام کر تا نظر آتا ہے ان کے علاوہ ایم این اے ،ایم پی اے ،ڈی سی ،اے سی اور وزیر مشیر روزانہ ان شاہرات سے گزرتے ہیں۔
لیکن بے حسی اور لاپرواہی کی اس قدر انتہا کہ وہ ان تجاوزات کی جانب کوئی قدم اٹھانے کیلئے تیار نہیں طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ میونسپل کمیٹی کے ساتھ سستا بازار کے نام پر کئی دکانیں قائم کی گئی ہیں جو کہ صریحاً غیر قانونی ہیں جن کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہوتی ہے لیکن چونکہ ان دوکانوں کو میونسپل کمیٹی حکام کی سرپرستی حاصل ہے ناجائز ہونے کے باوجود انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا ان دکانوں کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر یہاں حادثات اور لڑائی جھگڑے کے واقعات ہوتے ہیں اور ٹریفک بھی بلاک ہو جاتی ہے لیکن کوئی مائی کا لال ان ناجائز و غیر قانونی ناجائز تجاوات پرمبنی دکانوں کو ہٹانے کیلئے تیار نہیں ان دوکانوں کے سامنے گول چوک آبادی کے پھیلاؤ اور ٹریفک اژدھام کے باعث ایک خطرناک چوک بن چکا ہے اگر اس کو ختم کر کے یہاں ایک فوارہ نصب کر دیا جائے تو نہ صرف ٹریفک کا بہاؤ بہتر ہو جائے گا ۔