اگر تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو پاکستان میں شوگر مسائل کئی دہائیوں سے چل رہے ہیں لیکن یہ جو آج کل شوگر بحران کی جو صورتحال ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ہے ایسا پہلی بار ہو رہاہے کہ چینی کا ایکس مل ریٹ 9000سے 9200روپے فی 100کلو ہے مطلب مل سے چینی 91سے92روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے جبکہ مارکیٹ میں حکومت کا ریٹ 85روپے فی کلو ہے عوام کو چینی 105سے110روپے فی کلو کے حساب سے مل رہی ہے اوراگر 85روپے والی چینی اگر ملتی بھی ہے تو مشکل سے ایک کلو کسی کسی جگہ سے مل جاتی ہے اب اگر چینی پر کھینچا تانی نہ ہو تو چینی کا پرچون ریٹ کسی طور 95روپے سے زیادہ نہ ہو لیکن موجودہ بحران میں عوام کو چینی مہنگی مل رہی ہے جو دوکاندار ایکس مل ریٹ 91روپے کلو لے رہے ہیں وہ 30فیصد چینی عدالتی احکامات اور حکومت کی ہدایت پر 85روپے کلو فروخت کرتے ہیں باقی 70فیصد چینی 100روپے پلس فی کلو فروخت ہوتی ہے اب ضرروت مند عوام بیچاری اس میں پس رہی ہے پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی عوام تو ایک کلو چینی بھی نہیں خرید سکتی وہ ایک پائو یا آدھا کلو گلی محلوں سے خریدتے ہیں تو وہ انہیں 110روپے کلوسے کسی بھی طرح کم نہیں ملتی گذشتہ ہفتہ شوگر مارکیٹ میں مندی شروع ہوئی لیکن زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہی جیسے ہی لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ جوکہ شوگر کے ریٹ 85روپے فی کلو گرام مقرر کرنے کے متعلق تھا اس میں تمام فریقین کو شوگر سپلائی کی بحالی کا کہا گیا مارکیٹ میں ایک دم 100روپے کو اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔
شام کے اوقات میں گھوٹکی ڈھرکی،JDW اور تمام ملز کے ریٹس میں تقریباََ100سے لیکر125روپے کی بہتری ریکارڈ کی گئی گھوٹکی اور ڈہرکی وغیرہ کے ریٹس جو 9100روپے کی سطح پر پہنچ گئے تھے وہ شام کے اوقات میں 125روپے کے اضافے کے ساتھ 9225روپے تک پہنچ گئے یہ فیصلہ کیوں کہ پنجاب میں ہوا اس لئے پنجاب کا ایکس مل ریٹ سامنے ہی نہیں آیا سندھ کی شوگر ملوں نے کام بھی کیا اور تیزی میں کیا پنجاب کی شوگر ملوں نے سابقہ ڈیلز کی ڈلیو ریاں تو دیں لیکن نئی ڈیلز نہیں کیں اس کا مطلب ہے ایکس مل ریٹ نہیں ٹوٹا اب یہ ایک معمہ ہی ہے کہ جب ایکس مل ریٹ اوپر ہے تو پرچون ریٹ کیسے کم ہو سکتا ہے اب جن دوکانداروں پر ثابت ہو گیا ہے کہ انہوںنے 85روپے کلو سے پلس میں فروخت کیا ہے ان پر جرمانے عائد ہوں گے لیکن دوکاندار وہ سارے جرمانے اور جو وہ مہنگی خرید کر سستی فروخت کرتے ہیں وہ سب کا سب نقصان وہ ضرروت مند خریدار سے منافع سمیت وصول کر لیتے ہیں کیا فائدہ اس پریکٹس کا اس سے بہتر ہے کہ حکومت کم از کم 3ماہ کی چینی ماہر سے امپورٹ کریں اور سستے دام مارکیٹ میں دیں تا کہ قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکے اب کمال یہ ہے کہ پاکستان کی شوگر ملوں کو موقف ہے کہ وہ یہ جو 92روپے کلو فروخت کر رہی ہیں ا س میں بھی نقصان ہے جبکہ اگر امپورٹ کی جائے تو چینی پاکستانی عوام کو 80روپے کلو آرام سے مل سکتی ہے اس لئے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ پاکستان میں شوگر ملیں بند ہی کر دی جائیں اور ضرورت کی چینی امپورٹ ہی کر لی جائے جبکہ ملک میں گنے کی جگہ کاٹن لگائی جائے تا کہ ملکی آمدنی میں اضافہ ہو کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان میں شوگر مافیا کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی شوگر مافیا کسی بھی حکومت کے بس میں آسکتے ہیں۔
اب ایک نظر ڈالتے ہیں کھل بنولے کی مارکیٹ پر پاکستان میں اس وقت کاٹن جینگ سیکٹر کی پریشانی کاٹن نہیں بلکہ کھل بنولہ ہے جو کہ تاحال سٹاک میں موجود ہے اور جس کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہے اب جیسا کہ کاٹن سیزن 2020-21میں صرف 56لاکھ کاٹن بیلز پیدا ہوئی تو فروخت ہو گئی لیکن کھل بنولہ اس وقت بھی سٹاک میں موجود ہے گذشتہ سا ل بھی اس کھل بنولہ میں کاٹن جینگ آئل ملوں نے 35ارب روپے کا نقصان کیا تھا اس دفعہ نقصان تو کم ہے لیکن کھل بنولہ میں مار پڑ رہی ہے اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے اس کا جواب تلاش کرنا چاہیے آخر ایسا کیا ہے کہ کھل کا ریٹ عدم استحکام کا شکار ہے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے زیادہ راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے اس کی تین بڑی وجوہات ہیں 1پاکستان میں موٹے بنولے کی وجہ سے کپاس میں مشکل سے 22فیصد کاٹن ہوتی ہے 78فیصد بنولہ ہی ہے جبکہ جو سانگلی کپاس میں شامل ہوتی ہے اس کا 65فیصد حصہ بھی کھل میں شامل ہو تا ہے اس طرح اگر پاکستان میں ایک کروڑ کاٹن بیلز ہو تو جتنی کھل بننی چاہیے اتنی کھل 55لاکھ بیلز کی بن جاتی ہیں اور جب بنولہ مو ٹا ہو گا تو اس میں سے تیل بھی کم نکلے گا اوربہت کم معیار والا تیل نکلے گا اور موٹے بنولے والی کپاس سے جو بنولہ نکلتا ہے اس کی کھل میں ایک مسّلہ یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے اس میں نمی کم ہوتی جاتی ہے اس کا معیار گرنے لگتا ہے اور جانور اسے نہیں کھاتا اس لئے جب تک پاکستان میں نارمل بنولے والی کاٹن سیڈ ورائٹی نہیں لگے گی یہ کھل کا مسّلہ جوں کا توں ہی رہے گا 2 دوسرا پہلو ہے دو نمبر کھل کا جس کا سلسلہ کچھ سالوں سے جاری ہے جس کے دو بڑے نقصان ہیں پہلا بڑا نقصان یہ ہے کہ جانور پالنے والے کا کھل پر سے اعتماد کم ہوتا ہے اور دوسرے آپشن کی جانب جاتا ہے دوسرا یہ کہ دو نمبر کھل سے ایک نمبر کھل کا ریٹ ٹوٹ جاتا ہے اور ایک نمبر کھل کا کام کرنے والوں کو مسلسل نقصان ہو رہاہے 3تیسرا نکتہ یہ ہے کہ جب فصل کا سائز کم ہوتاہے تو کپاس کا ریٹ اوپر جاتاہے جس سے کھل اور بنولہ بھی اوپر جاتاہے جس کی وجہ سے مجموعی طور پر جانور پالنے والا اپنے دودھ کی پیداواری لاگت کم کرنے کیلئے دیگر ونڈا اور اجناس کی طرف جاتا ہے اس سے کھل کی طلب کم ہوتی ہے۔
کھل کا ریٹ جب بھی دو ہزار پلس ہو گا اس کا خریدار کم ہو تا جائے گا اس کے علاوہ کھل میں سٹہ بازی ،ادھار کلچر اور انوسٹر کی کمی جیسی کچھ مزید چھوٹی وجوہات بھی ہیں اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کاٹن جنرز کیا کریں کیونکہ نہ تو موٹے بنولے والی کپاس پیچھا چھوڑنے والی ہے اور نہ ہی سستا ونڈا ختم ہونے والا ہے کاٹن جنرز کو ہر صورت تین کا م کرنے ہوں گے تاکہ کھل کے بحران کو کم کیا جاسکے پہلا ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی پاکستان میں کاٹن سیڈ اچھا استعما ل ہوں دوسرا کھل میں سانگلی مکسنگ ہر صورت ختم کرنا ہو گی تیسرا دو نمبر کھل بنانے والوں کی سر کوبی کرنی ہو گی یاد رہے کہ کاٹن جنرز روئی سے زیادہ کھل اور بنولے میں پھنس جاتے ہیں اور اس پر اب سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا وقت آگیا ہے کاٹن سیزن شروع ہو رہاہے PCGAاور آئل ملز ایسو یشن کو مل کر اب کام کرنا ہو گا ۔