عمران خان صاحب نے اکتوبر2011ء میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے منعقد ہوئے جلسے کے بعد جو اندازِ سیاست اپنایا اس کے بارے میں میرے شدید تحفظات رہے ہیں۔اس کالم اور اپنے ٹی وی پروگرام میں ان کا کھل کر اظہار کرتا رہا۔اس کی وجہ سے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا دلاور چراغ پا ہوگئے۔ میری ذات پر گند اچھالنا شروع کردیا۔ صحافی اپنے لکھے اور بولے لفظ کی قیمت ادا کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔تحریک انصاف کے رضا کاروں نے مگر اپنے مخالفین کی خواتین رشتے داورں پر گند اچھالنے کی روایت بھی متعارف کروادی۔ بعدازاں جب یہ جماعت اگست 2018ء میں اقتدار میں آئی تو مجھے صحافت کے ذریعے رزق کمانے کے تمام وسیلوں سے محروم کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی۔
اپنے ساتھ ہوئے سلوک کے باوجود عمران خان صاحب کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فراغت کے عین ایک دن بعد لکھے کالم میں یہ اعتراف کرنے سے باز نہیں رہا کہ جس انداز میں انہیں اقتدار سے رخصت کیا گیا ہے میں اس کی وجہ سے دُکھی محسوس کررہا ہوں ۔بہتر یہی تھا کہ انہیں آئینی مدت مکمل کرنے دی جاتی اور پاکستان میں جمہوری روایات مستحکم بنانے کی کوشش ہوتی۔
عمران خان صاحب کی جگہ آئی حکومت کو ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ بھی پکارتا رہا ہوں۔ مصر رہا کے اپنے اقتدار کو طول دینے کے بجائے اسے جلد از جلد نئے انتخاب کے انعقاد کی جانب بڑھنا چاہیے۔ریاستی امور مگر مجھ جیسے دو ٹکے کے رپورٹر طے نہیں کرتے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بہت تیزی سے ٹھوس اقتصادی وجوہات کی وجہ سے ’’دیوالیہ‘‘ ہونے کی جانب بڑھ رہا ہے۔اس سے بچنے کی واحد صورت فی الوقت آئی ایم ایف کو رام کرنے کے بعد پاکستان کے دیرینہ خیرخواہ ممالک سے مالی امداد کا حصول ہے۔
اقتدارسے فارغ ہونے کے بعد عمران خان صاحب نے مبینہ طورپر ’’امریکی سازش‘‘ کی وجہ سے قائم ہوئی ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ سے نجات حاصل کرنے کے لئے عوامی تحریک برپا کرنے کا ارادہ باندھ لیا۔لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ابلاغ کے ہر ممکن ذریعے کو کمال ذہانت سے استعمال کیا۔ ان کے جارحانہ انداز نے ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کی بابت صبح گیا یا شام گیا والا ماحول بنادیا۔ جارحانہ سیاسی غضب کی زد میں آئی حکومت کو تاہم عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ تاریخی طورپر ’’دوست‘‘ رہے ممالک بھی ’’کٹا یا کٹی‘‘ برآمد ہونے کا انتظار شروع کردیتے ہیں۔پاکستان اگر سنگین ترین معاشی بحران کا نشانہ نہ بنا ہوا ہوتا تو شہباز حکومت نئے انتخاب کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جان چھڑاسکتی تھی۔
معاشی بحران مگر کسی ایک حکومت کی تباہی کا سبب ہی نہیں ہوتا ۔ اس بحران کا اصل نشانہ ریاستی ادارے ہوتے ہیں اور ہمارے ریاستی ادارے 1950ء کی دہائی سے مسلسل ایک ایسے عمل سے گزررہے ہیں جس نے انہیں ہمارے معاشی حقائق کے برعکس معمول سے زیادہ طاقت ور بنادیا ہے۔علم سماجیات کے ایک انتہائی ذہین محقق تھے۔ حمزہ علوی ان کا اسم گرامی تھا۔ 1970ء کی دہائی میں جاں گسل تحقیق کے بعد انہوں نے پاکستان کو Overdeveloped Stateپکارنا شروع کردیا تھا۔ ہماری بدقسمتی رہی کہ ان کی تحقیق کو ہمارے نصاب میں کبھی جگہ نہیں مل پائی۔میڈیا کے ذریعے لوگوں کی ’’ذہن سازی‘‘ پر اپنے تئیں مامور دلاور بھی اس کی بابت غافل ہی رہے۔
ریاستی اداروں کی طاقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کالم میں اکثر عمران خان صاحب اور ان کے حامیوں کو یاد دلاتا رہا کہ فی الوقت ’’تخت یا تختہ‘‘ والی جنگ برپا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔عمران خان صاحب نے مگر ’’میر جعفر‘‘ کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے ریاستی اداروں کو بھی براہ راست للکارنا شروع کردیا۔ ان کے حامی اس گماں میں مبتلا رہے کہ مذکورہ اداروں سے وابستہ بے تحاشہ افراد اور گھرانے بھی تحریک انصاف کے پھیلائے بیانیے کو نہایت گرم جوشی سے اپنائے ہوئے ہیں۔ان کے ’’بپھرے‘‘جذبات کی وجہ سے ’’اب نہیں تو کب؟‘‘ والی فضا بن چکی ہے۔ایسا سوچتے ہوئے عمران خان صاحب اور ان کے حامی فراموش کر بیٹھے کہ ریاستی اداروں کی اصل قوت Unity of Command ہے۔وہ برقرار نہ رہے تو پاکستان جیسے ملک شام جیسی صورت حال کی جانب لڑھکنا شروع ہوجاتے ہیں۔کسی بھی سیاسی جماعت کو ویسے بھی اپنی ’’محدودات‘‘ کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہی اپنی حکمت عملی تیار کرنا چاہیے۔ ہماری تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی ان کی پھانسی کے بعد 1980ء کی دہائی میں ریاستی اداروں کو للکارنے کو مجبور ہوئی تھی۔ اس کے سینکڑوں کارکنوں نے اس کی وجہ سے جوانی کے کئی برس عقوبت خانوں، جیلوں اور جلاوطنی میں صرف کردئیے۔ان میں سے کئی افراد کو بھرے بازار میں ٹکٹکی سے باندھ کر کوڑے بھی لگائے گئے۔ ’’جیالوں‘‘ کی بے پناہ تعداد ہونے کے باوجود اس جماعت کو مگر 1988ء کے انتخاب کے بعد سو طرح کے سمجھوتوں کے بعد ہی اقتدار میں نصیب ہوا تھا۔
عمران خان صاحب اور ان کے حامیوں کو مگر یہ حقیقت یاد دلائی جاتی تو حقارت سے وہ یاد دلاتے کہ ’’زمانہ‘‘ بدل چکا ہے۔اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ہمارے ملک میں 6کروڑ لوگوں کے پاس موبائل فون ہیں۔وہ اس کی وجہ سے ہمہ وقت آگاہ اور کچھ کرنے کو بے چین رہتے ہیں۔میری عمر کے لوگ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ’’بزدل‘‘ بن چکے ہیں۔ فقدان راحت کے خوف سے مجھ ایسے صحافی ’’چور اور لٹیرے‘‘ کہلاتے سیاستدانوں سے ’’لفافے‘‘ اور ’’ٹوکریاں‘‘ وصول کرتے ہوئے ’’ضمیر فروش‘‘بھی بن گئے ہیں۔
موبائل فون کو ’’انقلابی‘‘ ہتھیار تصور کرنے والے اس حقیقت کو نگاہ میں نہیں رکھتے کہ ان ہی فونوں نے ریاست کو بھی ماضی کے مقابلے میں توانا تر بنادیا ہے۔آپ کے پاس جو فون ہے وہ درحقیقت ریاست کو آپ کی نقل وحرکت اور خیالات سے مسلسل آگاہ رکھنے کا جاسوسی ہتھیار بھی ہے۔برما اور تھائی لینڈ کے نوجوان بھی ایسے فونز کے حامل ہیں۔ ان ممالک میں لیکن ریاست کو کئی مہینوں تک مسلسل جدوجہد کے باوجود ابھی تک جھکایا نہیں جاسکا ہے۔
بہرحال ’’دانشورانہ‘‘ بحث میں الجھنے کے بجائے میں کالم کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے دُکھی دل سے اعتراف کررہا ہوں کہ عمران خان صاحب کی جانب سے بلائے 25مئی کے دن اسلام آباد کی طرف بڑھنے والے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لئے پکڑدھکڑ کا جو سلسلہ پیر کی رات سے شروع ہوا ہے میں اس کی وجہ سے ایک لمحہ بھی سونہیں سکا ہوں۔ 1970ء کی دہائی سے مختلف حکومتوں کی جانب سے اپنائے ایسے رویوں کو ذاتی طورپر کئی باربھگتا ہے۔بطور صحافی 1975ء سے اس رویے کا مسلسل مشاہدہ بھی کررہا ہوں۔ربّ کریم سے فقط فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ ہمیں دائروں میں ہوئے مستقل سفر سے نجات کا کوئی راستہ دکھائے۔سیاست ہمارے ہاں خیالات ونظریات کے مابین جنگ ہی رہے۔ جس کا بنیادی ہتھیار دلیل ہوتا ہے ریاستی قوت کا جارحانہ استعمال نہیں۔
سیاست کابنیادی ہتھیار ریاستی قوت نہیں، دلیل
May 25, 2022