2مئی کو ’’نوائے وقت‘‘ میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا سید عابد علی عابد کے بارے میں مضمون شائع ہوا۔ سید عابد علی عابد سے میری کبھی ملاقات نہ ہوئی البتہ ان کی صاحبزادی شبنم شکیل سے لاہور اور پھر اسلام آباد میں متعدد ملاقاتیں رہیں۔سید عابد علی عابد اردو کے نامور شاعر، ادیب، نقاد، محقق، مترجم اور ماہر تعلیم تھے۔ان کی صاحبزادی شبنم شکیل معروف شاعرہ تھیں۔ شادی سے قبل شبنم عابد علی کے نام سے لکھا کرتی تھیں۔ شکیل احمد سے شادی کے بعد شبنم شکیل ہو گئیں۔ ان کے شوہر شکیل احمد بیوروکریٹ تھے۔ شبنم شکیل لاہور کے ایک کالج میں اردو کی پروفیسر تھیں۔ شوہر کی پوسٹنگ اسلام آباد میں تھی اس لیے انھوں نے اسلام آباد ٹرانسفر کرالی۔ شبنم کی والدہ بلقیس عابد علی مشہور افسانہ نگار تھیں۔ وہ اپنے والد پر فخر محسوس کرتی اور ان سے متاثر تھیں۔ اپنے والد کی شخصیت کے منفی اور مثبت دونوں اثرات قبول کیے۔ لاہور شہر انھیں پسند تھا۔ ان کا کہناتھا اگر حسین قدرتی نظاروں کی تلاش ہے تو اسلام آباد کے پاس آپ کو پیش کرنے کے بہت کچھ ہے اگر روحانی یا ذہنی تسکین چاہیئے تو لاہور بہتر۔ شبنم شکل کے والد نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ اس سے انھیں عدم تحفظ کا احساس رہا۔ ان کا کہنا تھا، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے کوئی زمین کھینچنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنا ایک شعر سنایا:۔؎
اب اس کی تپش مجھ کو ٹھہرنے نہیں دیتی
حسرت تھی میرے پاؤں کے نیچے بھی زمیں ہو
شبنم کا بھائی سید مینوچہر بھی بیوروکریٹ تھا۔ ان سے بھی میری چند ملاقاتیں رھیں۔ سیکرٹری اطلاعات، گورنمنٹ پرنٹنگ پریس کا سربراہ، ممبر بورڈ آف ریونیو کے علاوہ متعدد سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے والد بہت رعب والے تھے۔ ہم بہن بھائی ہر بات امی سے کرتے تھے۔ میرے ابا جی سے اگر کوئی شکایت کرتا کہ میں نصاب کی بجائے کہانیوں کی کتابیں پڑھتی ہوں تو وہ کچھ نہیں کہا کرتے تھے۔ شبنم شکیل کے والد کی دوستی ڈاکٹر تاثیر، صوفی تبسم، پطرس بخاری اور فیض احمد فیض سے تھی۔ اپنے والد اور انکے دوستوں کے بارے میں ایک واقعہ مجھے شبنم نے سنایا۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل، ڈاکٹر تاثیر اسلامیہ کالج کے پرنسپل اور میرے ابا جی دیال سنگھ کالج کے پرنسپل تھے۔ ایک دن یہ چاروں ریڈیو پر آئے، وہاں کوئی پروگرام تھا۔ میں بھی اس وقت بچوں کے پروگراموں میں حصہ لیا کرتی تھی۔ واپسی پر میں انکے ساتھ ہولی۔ گرمی کا موسم تھا، راستے میں انھوں نے لیمن پینے کی خواہش ظاہر کی۔ ان دنوں لیمن کی بوتل آٹھ آنے میں آتی تھی۔ وہ سب ایک دکان کے سامنے رک گئے۔ فیض صاحب نے پانچ بوتلوں کا آڈر دیا۔ جب ہم بوتلیں پی چکے اور پیسے دینے کی باری آئی۔ فیض صاحب کے پاس پیسے نہیں تھے۔ پھر انھوں نے ڈاکٹر تاثیر صاحب اور صوفی تبسم صاحب سے دریافت کیا مگر ان کے پاس بھی پیسے نہ نکلے۔ تب ڈاکٹر تاثیر، سید عابد علی عابد اور پطرس بخاری نے دکاندار سے کہا، ہم معزز لوگ اور کالجوں کے پرنسپل ہیں۔ ہم پر اعتبار کرو۔ تمہیں پیسے دے جائیں گے۔ دکاندار نے کہا، میں کسی پرنسپل کو نہیں جانتا۔ مجھے تو پیسے چاہئیں۔ تب انھوں نے ڈاکٹر تاثیر صاحب کو بطور ضمانت دکان پر بٹھا کر گھر سے پیسے لا کر دئیے۔ وہ دن اور آج کا دن، میں نے آج تک کوئی چیز پرس میں پیسے دیکھے بغیر نہیں خریدی۔ ابا جی نے مجھے اپنے دوستوں میں بیٹھنے کی اجازت تو نہیں دی تھی مگر میں دور بیٹھ کر ان کی باتیں سنا کرتی تھی۔ کبھی حقہ دینے کے بہانے ان کے قریب بیٹھ جاتی تھی۔ میرے ابا جی اور صوفی تبسم صاحب حقہ پیتے تھے۔ مجھے اردو بولنے اور ثقیل لفظ استعمال کرنے کا بہت شوق تھا۔ ایک بار پطرس بخاری صاحب کا فون آیا۔ انھوں نے پوچھا کون بول رہا ہے؟ میں نے کہا عابد علی عابد صاحب کی دختر نیک اختر بول رہی ہوں۔ اس بات کا خوب ریکارڈ لگا۔ بخاری صاحب جب بھی ہمارے گھر آتے تو پوچھتے۔ بھئی، دختر نیک اختر کہاں ہے؟ شبنم کو بچپن میں ’’شبو‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ بچپن میں وہ صرف گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ بچپن میں سائیکل چلانے کا شوق تھا۔ میرے ابا جی نے سائیکل لا کر نہیں دی البتہ ملازموں کی سائیکل چلایا کرتی تھی۔ میں نے شبنم کو پنجابی کا ایک مصرع سنایا۔ ’’عمر گزری پباں بھار‘‘ اس نام سے میرا ایک پنچابی شعری مجموعہ بھی ہے۔ اس سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک زندگی کا تصور کیا ہے؟ ان کا کہنا تھا۔ میرے خیال میں اصل زندگی بھی یہی ہے۔ سیدھی سادی آسان زندگی کو میں شمار نہیں کرتی۔ سچ پوچھئے تو مجھے ہمیشہ اس دنیا میں ایسے لوگ پسند آتے رہے ھیں جو ذرا مشکل پسند تھے۔ عام روش سے ہٹ کر۔ ’’پٹڑی سے اترے ہوئے‘‘ ایک الگ اور نیا راستہ تلاش کرتے ہوئے لوگ۔ میں نے آج تک کسی کو بھی بنے بنائے، ڈھلے ڈھلائے اصولوں کے مطابق جانچا یا پرکھا نہیں۔ خود مجھ کو بھی اگر ’’سکہ رائج الوقت‘‘ کے حساب سے پرکھا جائے تو پوی نہیں اتروں گی۔