اس حقیقت کے متعلق کہ کیا دنیا میں کچھ لوگ قسمت کے دھنی بھی ہوتے ہیں یا یہ صرف محاورے تک ہی محدود ہے اس بابت اس خاکسار نے آج تک کبھی سوچا ہی نہ تھا لیکن ایک بات بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس حوالے سے اکثر دوستوں کے ذہنوں میں ایک نام آتا ہو گا اور وہ نام ہو گا عمران خان۔ اس بارے کالم کے اگلے حصے میں بات ہو گی لیکن سرِ دست جن شخصیات کا اس تناظر میں ذکر آئیگا انکا تعلق بھی اگر براہ راست عمران خان سے نہیں تو انکے دفتر اور پارٹی کی قد آور شخصیات سے ضرور ہے۔ بات کچھ اسطرح ہے کہ پچھلے ایک ماہ سے بارہا اس خاکسار کی کوشش رہی کہ وہ سابقہ دور حکومت کے ایک ایسے سکینڈل سے پردہ اْٹھائے کہ جس میں میرٹ کی دھجیاں اڑا کر سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اعظم خان کے بھائی اصغر خان اور پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی وجہیہ اکرم کے خاوند اکرم چوہدری اور کئی دوسرے من پسند افسران کی گریڈ انیس سے گریڈ بیس اور گریڈ بیس سے گریڈ اکیس میں ترقی کو ممکن بنایا گیا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تین تین دفعہ سابقہ پروموشن بورڈوں کے اجلاسوں میں ڈیفر اور سپر سپیڈ ہونے کے باوجود بورڈ کے ممبران کی ذاتی مہربانیوں کی وجہ سے یہ لوگ پروموٹ تو ہو ہی گئے لیکن قسمت کی دیوی کی مہربانی کی انتہا دیکھیں کہ جب بھی اس سکینڈل کو بے نقاب کرنے کے لیے قلم اْٹھا نا چاہا تو کوئی نہ کوئی ایسا اہم موضوع سامنے آ گیا کہ اس سکینڈل کے بخیئے ادھیڑنے کی کارروائی موخر کرنا پڑی۔ آج بھی جب اس موضوع پر لکھنے کیلیئے کیبنٹ سیکرٹریٹ کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے پروموشن کے قواعد و ضوابط سے متعلق نوٹیفیکیشن S.R.O. 1493(1)1201 اور پروموشن بورڈ کے منٹس کی کاپی کھولی کہ قارئین کو تفصیلاً بتا سکوں کہ اس میں وہ کون کونسی کلاز ہیں جنکا فائدہ اْٹھا کر ڈنڈی ماری گئی اور ان افسران کو نوازا گیا تو عین اس وقت عمران خان کی طرف سے 25 مئی کو لانگ مارچ کی خبر سامنے آ گئی لیکن اس دفعہ میں بھی باز آنے والا نہیں اور ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر تفصیلا نہیں تو کم از کم مختصرا ًقارئین کو اس بابت آگاہی دی جائے کہ من پسند ہونے کی وجہ سے ان افسران کو کیسے نوازا گیا۔ آپکو بتاتا چلوں کہ درج بالا نوٹیفکیشن کے رول 18 کی کلاز (3) سب کلاز (B) میں اس طریقہ کار کا اندراج ہے جسکے مطابق پروموشن کیلئے درکار نمبروں کی تقسیم ہوتی ہے اسی سب کلاز کے ٹیبل میں ترتیب نمبر (1) کے مطابق کوالیفیکیشن آف پی ای آرز کے 40 نمبر (2) کے مطابق ٹریننگ ٹی ای آرز کے 30 نمبر اور (3) کے مطابق بورڈ کے ممبران کی صوابدید پر 30 نمبر مقرر کیے گئے ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ بنتا ہے کہ بورڈ کے ممبران اپنی صوابدید کے مطابق نمبر دیتے وقت ہر امیدوار کے کوالیفیکیشن اور ٹریننگ کے مجموعی نمبروں کو سامنے رکھتے ہوئے اسی تناسب سے نمبر دیں اور اگر کسی انٹیلیجنس رپورٹ کی بنا پر نمبروں میں کمی بیشی درکار ہو تو اسکا حوالہ دیا جائے نہ کہ صرف مفروضوں پر اکتفا کیا جائے لیکن آئیے دیکھتے ہیں اس بورڈ میں کیا ہوا۔ وہ افسران جو تین تین دفعہ ڈیفر اور سپرسیڈ ہوئے اور جنکی کوالیفیکیشن اور ٹریننگ کے مجموعی نمبر پنتالیس اور پچاس سے بھی کم تھے انھیں اس توقع پرکہ مستقبل میں مذکورہ امیدوار بہتر نتائج دے گا ،تیس میں سے پچیس اور ستائیس نمبر دیکر بالترتیب ستر اور پچھتر کے مجموعی نمبر پورے کر دئے گئے اور وہ جنکی سفارش نہ تھی یا جنکی لابنگ نہ تھی انکے پی ای آرز اور ٹی ای آرز کے کل 56 اور 58 نمبرز ہونے کے باوجود صرف دس اور بعض کو اٹھ نمبرز دیے گئے اور اسطرح وہ بیچارے ایک ایک دو دو نمبرز سے بالترتیب 70 اور پچھتر کے مجموعی نمبرز کا اہداف پورا نہ کر سکے۔ بلاشبہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی اس سکینڈل کا نوٹس لے چکی ہے لیکن کیونکہ معاملہ عدالتوں کے زیر سماعت ا ٓچکا ہے اس لیئے راقم سمجھتا ہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی اس سلسلے میں شائد جلد کوئی قدم نہ اٹھا سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یا تو اس بات کی گارنٹی دیکر کہ ان بے ضابطگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بورڈ کا دوبارہ انعقاد کیا جارہا ہے تمام درخواستوں کی واپسی کروا کر حق داروں کو حق دیا جائے یا اس ملک کی اعلی ترین عدلیہ تمام ہائی کورٹس سے ان سب کے کیسز ایک جگہ اکٹھا کر کے ایک دو سماعتوں میں ان بے ضابطگیوں کا جائزہ لے اور وہ افسران جن سے اس ملک کی ترقی جڑی ہے انہیں انکا حق دلوائے اور جنہوں نے اپنوں میں ریوڑیاں بانٹیں انکی بھی خبر لے ۔
اب آتے ہیں کہ عمران خان کتنا قسمت کا دھنی ہے۔بلا شبہ اپنے وقت میں وہ دنیا ئے کرکٹ کا ایک درخشاں ستارہ تھا لیکن اسکے ساتھ دیکھیں کہ انہی دنوں اسکے کزن ماجد خان جسے انگریز مائی ٹی خان کہتے تھے اسکا بھی کیا مقام تھا جتنی سپورٹس مین سپرٹ اور گریس اس شخص میں پائی جاتی تھی شائد تاریخ میں اسکی بھی کوئی اور مثال ملتی ہو اسکے ساتھ ساتھ ڈینس للی آصف اقبال اور بھی کئی ایسے تھے جنکا سحر سر چڑھ کر بولتا تھا لیکن قسمت کی دیوی اگر مہربان تھی وہ اس شخص پر کہ یہ دیو ملائی شہزادوں کی صف میں گنا جانے لگا۔ دیو ملائی شخصیت کا ذکر چل نکلا تو پھر فضل محمود کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے لیکن بات پھر وہی آ جاتی ہے کہ قسمت کی دیوی کس پر مہربان ہوتی ہے۔ اسی کی تازہ مثال لے لیں کہ یہ شخص عمران خان قسمت کا کتنا دھنی ہے کہ اپنے ساڑھے تین سالہ دور ناقص طرز حکمرانی اور خامیوںکے باوجود اتحادی جماعتوں کی طرف سے بے وقت اور عجلت میں کیے گئے غلط فیصلے کی بدولت وہ اپنی غلطیوں اور گناہوں سے آزاد ہو گیا اور اس کا تمام ملبہ اب اتحادی جماعتیں بھگت رہی ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوصف اس خاکسار کی تیسری آنکھ اس ہفتے کچھ بہت بڑی انہونیاں ہوتے دیکھ رہی ہے جس کا تصور کر کے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ بس اتنا ہی کہنا چاہونگا کہ سیاسی پارٹیاں ہوں یا ریاستی ادارے ،سب کو سوچنا ہو گا سیاست نہیں ریاست۔