حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ درج ذیل آیت کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ عنقریب وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ ’’بے شک وہ لوگ جو کھاتے ہیں یتیموں کے مال ظلم سے وہ تو بس کھا رہے ہیں اپنے پیٹوں میں آگ اوروہ عنقریب جھونکے جائیiگے بھڑکتی آگ میں ‘‘۔کہاجاتا ہے کہ آفرین ہے اس گھر پر جس میں یتیم پلتا ہو، یتیم کی حق رسی ہوتی ہواسے شفقت وپیار ملتا ہو اورہلاکت ہے اس گھر کیلئے جس گھر میں یتیم کی دادرسی اوراسکے حق کی پہچان نہیں ہوتی۔ مروی ہے کہ بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں ایک شخص حاضر خدمت ہواعرض کی یا نبی اللہ ﷺ!میں ایک یتیم کی پرورش کرتا ہوں کس حدتک اسکی سرزنش کرسکتا ہوں؟حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشادفرمایا کہ جس حدتک اپنی اولاد کی سرزنش کرتے ہویعنی اسے ادب سکھانے کیلئے سرزنش کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی طرح جس طرح ایک والد اپنی اولادکے ساتھ کرتا ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض ؒفرمایا کرتے تھے کہ بسااوقات یتیم (کی تربیت)کیلئے ایک طمانچہ اس کو حلوہ کھلانے سے زیادہ فائدہ مندہوتا ہے۔ حضرت فقیہ ؒ فرماتے ہیں کہ اگر پٹائی کئے بغیر تعلیم وادب سکھایا جاسکتا ہے تو پھر یہی مناسب ہے کہ کسی قسم کی سرزنش نہ کرے۔یتیم کو بلاوجہ مارنا عتاب الٰہی کا سبب ہے۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :جب کوئی یتیم کو مارتا ہے تو اس کے رونے سے عرش الہٰی ہل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتا ہے اے میرے فرشتوں !اس بچے کو کس نے رلایا ہے جس کے باپ کو سپرد خاک کردیا گیا ہے حالانکہ اللہ جل مجدہ خوب جانتا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں یا رب العالمین ! ہم نہیں جانتے ،اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناکر کہتا ہوں کہ جو یتیم کو میرے لئے راضی رکھے گا میں روز قیامت اپنی طرف سے اسے خوشیوں سے مالا مال کردوں گا۔ حضور اکرم ﷺ یتیموں کے سروں پر خصوصی طور پر دست شفقت رکھتے اوران کے ساتھ نرمی برتا کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی حضور نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ حضرت عبدالرحمن بن ابزیٰ ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائودعلیہ السلام سے فرمایا : اے میرے نبی دائود !یتیم کیلئے مہربان باپ کی طرح بن جائو،اور خوب جان لو جو بوئوں گے وہی کاٹو گے اوریہ بھی یادرکھونیک اوروفاشعار بیوی شوہر کیلئے اس بادشاہ کی طرح ہے جو سونے کا تاج سجائے خوش باش ہو جب بھی اسے دیکھے اس کی آنکھوں کو تسکین مل جائے اوربری عورت شوہر کیلئے بوڑھے شخص پر ثقیل بوجھ کی طرح ہے۔ (تنبیہ الغافلین : فقہیہ ابو اللیث سمرقندی)