ہسپانیہ سے سمرقند کے لیے کلاویجو اور اس کے ساتھیوں نے موجودہ شمالی ایران کا سفر کیا تھا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے دریائے آکسس یا آمو دریا کو عبور کیا اورموجودہ ازبکستان میں داخل ہوئے۔ سفر کے دوران اس کی ٹیم کے کچھ ساتھیوں کی صحت خراب ہوگئی، ان میں سے کئی بیمار تھے اور پیچھے رہ گئے تھے، ان میں سے ایک گومز ڈی سالار مر گیا تھا جسے انہوں نے شیراز میں دفن کیا تھا۔ستمبر 1404 میں، ہسپانوی سفارت کار کلاویجو اور ان کی ٹیم سمرقند کے مضافات میں لمبے، سرنگوں والے داخلی راستوں اور بلند و بالا گیٹ ویز کے ذریعے داخل ہوئی، وہ دونوں طرف سے محرابوں سے گزرے جہاں حاضرین بیٹھتے تھے۔ انہوں نے مختلف نمونوں کی سنہری اور نیلی چمکیلی ٹائلیں اور سورج اور شیروں کی تصویریں دیکھیں۔ کلاویجو اور ان کی ٹیم نے پیدل، بادبان، گھوڑے اور اونٹ کے ذریعے 7000 میل سے زیادہ کا سفر کیا تھا، وہ میدانوں اور صحراؤں، سمندروں اور پہاڑوں سے گزرے۔ کلاویجو نے بیان کیا، وہاں پر خوشگوار باغات تھے، جن میں بہتا ہوا پانی اور پھل دار اور سایہ دار درخت تھے۔آخرکار وہ ایک وسیع نئی سلطنت کے دار الحکومت سمرقند پہنچ گیا تھا جسے تیمور نامی ایک ذہین فوجی اور فنون کے سرپرست نے بنایا تھا (فارسی میں تیمور کا مطلب ہے ''لوہا'')۔ کیسٹیلیا کے ہنری III نے کلاویجو کو اس شخص کے بارے میں مزید جاننے کے لیے بھیجا تھا جسے یورپی لوگ ٹیمرلین کہتے تھے۔
کلاویجو نے سمرقند کے بارے میں تفصیل سے بتایا:سمر قند کی دکانیں چین سے درآمد شدہ ''ریشم، ساٹن، کستوری، یاقوت، ہیرے، موتیوں سے بھری ہیں، اس نے وضاحت کی کہ شہر کی سب سے بڑی مسجد اس کی آمد سے قبل مکمل ہو چکی تھی لیکن تیمور نے اس کے گیٹ کو دوبارہ گرانے کا حکم دیا کیونکہ اس میں شان و شوکت کی کمی تھی۔ قرون وسطی کے ہسپانوی اور کاتالان شاہراہ ریشم اور وسطی ایشیا کی دنیا کے مقابلے میں پسماندہ تھے۔ سمرقند پہنچنے پر انہوں نے لکھا کہ پارٹی باغات، مکانات اور بازاروں سے ڈھکے ایک میدان سے گزری جہاں انہوں نے بہت سی چیزیں فروخت کیں۔ وہ لکھتے ہیں جب وہ اور اُن کے ساتھی سرسبز و شاداب علاقوں سے کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد شہر کے دروازوں پر پہنچے، ان کا استقبال ''چھ ہاتھیوں نے کیا، ''سمرقند کے سفیر آگے بڑھیاور ہسپانوی آدمیوں کو ملے، جنہوں نے تحائف کو اپنے بازوؤں میں اچھی طرح سے ترتیب دیا ہوا تھا، اور وہ سفیر جسے تیمور عظیم نے کاسٹیلیا کے بادشاہ کے پاس بھیجا تھا، ان کے ساتھ تھا۔ جب انہوں نے اسے دیکھا تو اس پر ہنس پڑے کیونکہ القاضی کاسٹیلیا کے فیشن میں ملبوس تھے۔ کلاویجو نے تیمورکے ایک مشہور درباری حاجی محمد القاضی کے بارے میں بتایا جو کئی سال پہلے طلیطلہ میں کاسٹیلیاکے دربار میں آیا تھا۔ حاجی القاضی کو شہنشاہ تیمورنے کاسٹیلیاکے بادشاہ کو تحائف اور خطوط پیش کرنے کے لیے بھیجا تھا، کلاویجو اس حق کو واپس کرنے کے لیے اب سمرقند میں تھا۔
کلاویجو اور دوسرے لوگوں کو ایک بوڑھے آدمی کے پاس لایا گیا جس کے سامنے وہ جھک گئے، وہ تیمور کی بہن کا بیٹا تھا۔ اس کے بعد انہیں تین چھوٹے لڑکوں کے سامنے لایا گیا جو تیمور کے پوتے تھے جن کے سامنے انہوں نے سجدہ کیا اور اپنے بادشاہ کا خط پیش کیا، اس کے بعد انہیں عظیم فاتح تیمور کے سامنے لایا گیا۔ عظیم فاتح امیر تیمور نے ایک ریشمی لباس پہنا تھا اور اس کے سر پر ایک بڑی سفید ٹوپی تھی جس میں مرکزی یاقوت تھا جو موتیوں اور جواہرات سے گھرا ہوا تھا۔ شہنشاہ کڑھائی والے قالین پر بیٹھا ہوا تھا جس کے ارد گرد تکیے تھے۔ کلاویجو نے بتایا کہ تیمور کے پیچھے محل کا ایک دروازہ تھا اور سامنے سرخ سیبوں سے بھرا ہوا چشمہ تھا۔ تین بار، کلاویجو اور اس کے ساتھیوں نے خود کو جھکایا، اس کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اٹھیں اور آگے آئیں کیونکہ ان کے میزبان ان سے ملنا چاہتے تھے۔ تیمور کی بینائی پہلے جیسی نہیں تھی، ان کی عمر تقریباً 70 کے قریب تھی۔امیر تیمور نے کہا؛ اسپین کے بادشاہ کی طرف سے بھیجے گئے سفیر، جو فرینکوں کا سب سے بڑا بادشاہ ہے، اور دنیا کے آخر میں رہتا ہے، یہ فرینک واقعی ایک عظیم لوگ ہیں میں اسپین کے بادشاہ کو نیک خواہشات پیش کروں گا۔ یہ کافی ہوتا اگر وہ آپ کو خط کے ساتھ میرے پاس بھیجتا بغیر تحائف کے، میں اس کی صحت مند صحت کے بارے میں سن کر بہت مطمئن ہوں۔ سفارتی کامیابی کے لیے حالات بالکل ٹھیک ہو رہے تھے اور یہ کلاویجو جیسے سفارت کار کی کامیابی تھی۔ اس رات سفیروں کو ان کی رہائش گاہیں دکھائی گئیں، جہاں وہ باغات کے درمیان آباد ہوئے، اور یہ سمرقند میں کلاویجو کے سفارت خانے کے قیام کے لیے پہلا قدم تھا۔
کلاویجو نے شہر کی خوبصورتی اور تفصیل بیان کی، اس نے کہا کہ سمرقند ایک میدان میں کھڑا ہے۔ سمرقند شہر بذات خود ہسپانوی شہر سیویل (اشبیلیہ) سے کہیں بڑا ہے، لیکن سمرقند کے باہر بہت سے مکانات ہیں جو وسیع مضافات بناتے ہیں۔ کلاویجو نے وضاحت کی کہ مضافات کے باغات میں درمیان سے کھلے چوکوں والی سڑکیں گزرتی ہیں۔
یہ سب گنجان آباد ہیں، اور یہاں ہر قسم کا سامان روٹی اور گوشت کے ساتھ فروخت ہوتا ہے۔ سمرقند کے باہر ان باغات میں بہترین اور حیران کن گھر تھے جن میں تیمور اعظم کے بہت سے محلات بھی شامل تھے۔ مزید برآں، یہاں کے بہت سے سرکاری افسروں کی اپنی جائیدادیں، محلات اور خوبصورت گھر تھے، جن میں سے ہر ایک کے اپنے باغ تھے۔ کلاویجو نے بتایا کہ سمرقند کے ارد گرد بے شمار باغات اور انگور کے باغات تھے کہ جو مسافر شہر کے قریب آتا ہے اسے صرف درختوں کی اونچائی نظر آتی ہے اور محلات، مکانات نظر نہیں آتے۔ جب ہم سمرقند کی گلیوں سے گزرتے ہیں تو باہر اور اندر کے باغات میں پانی کی بہت سی نالیاں ہوتی تھیں اور بہت سے باغات خربوزے اور کپاس اگانے والی زمینیں تھیں۔
اس عظیم دار الحکومت اور اس کے ضلع کی عظمت اور فراوانی ایسی ہے کہ واقعی حیرت انگیز ہے اور اسی وجہ سے اس کا نام سمرقند پڑا ہے۔ کلاویجو کی تحقیق کے مطابق اس نے سمرقند کے بارے میں کہا تھا: اس نام کے لیے سیمیز کینٹ زیادہ درست لکھا جائے گا، دو الفاظ جو ''Rich-Town'' کو ظاہر کرتے ہیں، Semiz کے لیے (ترکی میں) موٹا یا امیر ہے اور کینٹ کا مطلب شہر یا بستی ہے۔ وقت کے ساتھ یہ دونوں الفاظ بگڑ کر سمرقند نام پڑ گئے۔