سلف صالحین اپنے چھوٹوں کے ساتھ بھی حسنہ اخلاق سے پیش آتے . کوئی بزرگ ہو عزیز و اقارب اور غیروں کے ساتھ بھی نیک سلوک کرتے اور عالم کا تو کیا کہنا جاہل سے بھی لطف و کرم اور مہربانی کا برتاوّ کرتے۔ علماء کا اتفاق ھے کہ علومرتبت زیادتی ادب پر موقوف ھے اور ادب دراصل اپنے میں نقص اور دوسرے کو باکمال سمجھنے کا نام ھے۔ رسول اکرم ؐکسی دوست کا اپنے دوست کو تیز نظر سے دیکھنا بھی ناپسند فرماتے تھے۔ علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں، سب سے بڑھ کر عارف الہی وہ ھے جو اہل علم کی زیادہ تعظیم کرے ۔ بکر بن عبداللہ مزنی ؒ فرماتے ہیں جب تم کسی اپنے سے بڑے کو دیکھو تو اسکی تعظیم کرو اور یقین کرو کہ وہ تم سے پہلے ایمان لایا اور نیک عمل کئے اور اگر اپنے سے چھوٹے کو دیکھو تو بھی اس کی تعظیم کرو اور یقین کرو کہ تم اس سے پہلے گناہ کرنے لگے ہو اور اگر لوگ تمھاری تعظیم کریں تو اسے اللہ تعالی کا احسان سمجھو اور یقین کرو کہ تم اس قابل نہیں ہو اور اگر توہین و تنقیص کریں تو جان لو کہ یہ تمھارے کسی گناہ کا سبب ھے۔حاتم اصم ؒفرماتے ہیں کہ لوگوں نے اخلاق میں تین باتیں چھوڑ دی ہیں اول دوستوں سے حسن اخلاق کرنا، دوم ان کے عیوب کو پوشیدہ رکھنا، سوم انکی تکلیف کا برداشت کرنا - یحیی بن معاذ ؒفرماتے ہیں وہ قوم نہائت بری ھے جس میں اگر مسلمان مالدار ہوں تو انکی تعریف کریں اور اگر تنگ دست ہو تو ذلیل جانیں نیز فرماتے ہیں کہ کوئی کم عمر، عمر رسیدہ کے آگے ہوکر نہی چلتا مگر اس کو نیکی سے محرومی کی سزا ملتی ھے- یحیی بن معاذ ؒ نے ایک آدمی کی نسبت سنا کہ وہ مال کا آرزومند ھے تو آپ نے اس سے دریافت کیا تو مال کا کیا کرے گا؟ اس نے کہا مساکین کو دونگا ، آپ نے فرمایا مفلسوں کا بوجھ تو خدا پر ہی رہنے دے تاکہ تو انکو اچھا سمجھتا رھے ورنہ جب انکا بوجھ تجھ پر ہوگا تو تو انہیں برا جاننے لگے گا اور وہ تجھے بھاری معلوم ہونگے ۔ نیز فرمایا تیرا مسلمان بھائی کی تعظیم کرنا یہ ھے کہ جب دوسرے شہر میں اسکے وہاں غمی ہو جائے تو تو اسکی تعزیت کے لئے سفر کرے- کہمش بن حسن ؒ فرماتے ہیں میں اپنی والدہ کی خدمت کیا کرتا تھا اور ان کا پاخانہ اٹھاتا تھا تو سلیمان بن علی نے میرے پاس ایک تھیلی بھیجی اور کہلایا کہ اس روپے سے ماں کی خدمت کے لئے ایک خادم خرید لے۔ میں نے انکار کردیا اور کہلا بھیجا کہ میری والدہ نے میرے بچپن میں کسی اور سے میری خدمت کروانا پسند نہی کیا، ایسا ہی میں بھی بڑا ہوکر انکی خدمت دوسرے کے سپرد کرنے پر راضی نہی ہوںَ دوستو ادب کو مضبوطی کے ساتھ قائم رکھو، خدا کا ادب، رسول اکرمؐ کا ادب، قرآن مجید کا ادب وغیرہ- خدا کا ادب یہ ھے کہ اس سے کسی وقت غافل نہ ہو کیونکہ یہی مقصود حاصل کرنے کا دروازہ ھے جو غفلت اختیار کرتا ھے گویا ترک ادب کرتا ھے بہرحال جس شخص کو خبر نہ ہو کہ اللہ تعالی کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟ اور کیا کیا احکام ہیں ؟ یہ سب سے بڑی غفلت ھے بڑی بے ادبی ھے، جس مالک نے آپکو پیدا کیا ، پرورش کیا، اسکے احسانات کا شمار ناممکن ھے، اس سے غفلت کتنی بڑی بے ادبی ھے پھر نافرمانی تو کتنا دور کردیتی ھے، اللہ کا ڈر جاننے والوں کو ہی ہوتا ھے اور علم یہی ھے کہ اللہ کے حقوق جانے، اسکے احکام جانے اور ان پر عمل کرے- رسول اکرمؐ نے اپنے معجزانہ ارشاد گرامی کے مطابق کس قدر جامع و کامل بات ارشاد فرمائی کہ " الدین کلہ ادب " کہ دین سارا کا سارا ادب ہی ھے- ہمارے معاشرے میں ادب کا مفہوم محدود معنی میں لیا جاتا ھے جبکہ ادب کی حقیقت راحت رسانی ھے نہ کہ ظاہری تعظیم و توقیر - حقیقی ادب وہی ھے جو ہمیں دین نے سکھایا اور حضرات صحابہ کرام ؓ اسلاف و اکابر کی درخشندہ زندگیوں میں نظر آتا ھے۔ افسوس کہ آج ہم اس حقیقی ادب سے ناآشنا اورعملی طور پر محروم ہیں( جاری ہے)