اسلام آباد میں آج ہونے والے احتجاجی دھرنے کے حوالے سے ترجمان پی ٹی آئی نے واضح کیا ہے کہ خان صاحب کی اہلیہ دھرنوں میں شریک نہیں ہوں گی۔اس وضاحت پر کافی تنقید کی جا رہی ہے ،گویا ترجمان موصوف نے کئی برس سے پی ٹی آئی کی جدوجہد میں حصہ لینے والی خواتین کے خلوص کے منہ پر طمانچہ مارا ہے ۔یعنی جوخواتین ان کے دھرنوں میں شریک رہی ہیں وہ گھریلو خواتین نہیں ۔اس سے قبل عمران خان نے ملتان میں محترمہ مریم نواز کو مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’وہ میرا نام اس قدر جوش و خروش سے نہ لیا کریں کہ ان کا شوہر ناراض نہ ہو جائے ‘‘۔خان صاحب کے اس بیان پر سب لوگوں کی طرف سے اس پر شدیدردعمل ظاہر کیا گیا ۔عوام وخواص کا کہنا تھا کہ خان صاحب کو قوم کی بیٹی کے بارے میں ایسے الفاظ نہیں کہنے چاہئے تھے۔جبکہ عمران خان کے سپورٹرز اس بیان پر مثبت رائے کا اظہار کرتے رہے ۔ گذشتہ روز مولوی راشد سومرونے ایک لیڈر کی والدہ محترمہ کے بارے میں توہین آمیز کلمات اداکرکے اپنی ذہنیت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ماں کسی کی بھی ہو ،قابل تعظیم ہے ۔کسی کو بھی اس حد تک نہیں جانا چاہئے، دیکھا جائے تودونوں کا طرز تکلم انتہائی قابل مذمت اور شرمناک ہے ۔سیاست میں
بدتہذیبی کا چلن کوئی نئی بات نہیں ،گذشتہ کئی برس سے ہمارے رہنماء پاکستان میں بدتہذیبی و غیر شائستگی‘ ‘کا جو کلچر پروان چڑھا رہے ہیں ۔یہ کسی طور قابل تعریف قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس کے اثرات ہماری آئندہ نسلوں کی برباد ی کی صورت میں ساری قوم کو بھگتنا پڑیں گے ۔مولوی راشد سومروکا فعل بھی قابل مذمت ہے ،لیکن اس صورتحال کے ذمہ دار بھی پی ٹی آئی خود ہے ۔ہمارا کہنا ہے کہ جب انسان گالی دینے والے کواسی کی زبان میںجواب دیتا ہے تو پھر دونوں ہی برابر ہو جاتے ہیں ۔کسی کی گالی کو سن کر صبر کرنا زیادہ بہتر عمل ہے ۔ انسان کاغیر اخلاقی رویہ اس کی تربیت پر سوالیہ نشان ہوتا ہے ۔اسلام ادب و اخلاق سے پھیلا تھا ،کفار کو برا بھلا کہیں نہیں کہا گیا ،یہ اسوہ حسنہ کی جھلک ہے جس سے متاثر ہو کر کافر بھی اسلام پر ایمان لائے ۔اقتدار کی کرسی پھولوں کی سیج نہیں ،یہ کانٹوں بھرا بستر ہے کہ جس پر کروٹیں بدلتے رات گذر جاتی ہے اور دن کو عوام وخواص چین نہیں لینے دیتے ،اقتدار کا یہ سمندر مگر مچھوں سمیت بے شمار قسم کے حشرات الارض کا ڈیرہ ہے ۔کرسی ملنے کے بعد انسان کو پتہ چلتا ہے کہ اس کے ساتھ کون کیا کررہا ہے ۔عمران خان کو اندازہ ہی نہ تھا کہ اسے یوں وقت سے پہلے نکال باہر کردیا جائے گا ۔اور حکومتوں میں لانے اور وہاں سے نکالنے والی قوتیں ہمیشہ ہی اپنی حکمت عملی سے کامیاب ہوتی رہی ہیں ۔جبکہ بدنامی کا طوق اسی کٹھ پتلی گلے میں ڈال دیا جاتا ہے جو اقتدار میں
آنے سے پہلے یہی سوچتا ہے کہ وہ ملکی ترقی اور خوشحالی کی ایک نئی تاریخ مرتب کرے گا ۔لیکن یہی قوتیں قومی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔ان کا کام محض ’’مہرے ‘‘تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد عمران خان ذہنی طور پر بہت زیادہ ڈسٹرب ہو چکے ہیں اس لئے وہ تہذیب و اخلاق بھی بھول چکے ہیں ۔مقتدر قوتیں اہل اقتدار کو جلد ہی چلتا کر دیں تو یہ بھی عجب نہیں لیکن فی الحال اس کے امکانات نہیں ۔یہ پاکستان ہے یہاں سیاسی حالات کسی بھی وقت پلٹا کھا سکتے ہیں ۔عمران خان کو اپنی جدوجہد جاری رکھنا چاہئے کہ لیکن غیر شائستہ گفتگو سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ انسان جب اپنے مخالفین کو غلط القاب سے نوازے گا تو یقینا وہ بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ۔وہ بھی دو ہاتھ آگے بڑھ کر ہی بولیں گے ۔سوشل میڈیا کی وجہ سے جھوٹ اور بد اخلاقی کا کلچر وسعت پا رہا ہے ۔ عمران خان ہو،مریم نوازہو یا کوئی اور سیاسی رہنماء سب کو چاہئے کہ وہ غیر ضروری نفرت انگیز گفتگو کاسلسلہ ترک کردیں،آپس کی لڑائی کو اپنے آپ تک محدود رکھیں، فیملیز تک مت لے جائیںکیونکہ اس طرح’’ فساد فی العرض‘‘ بڑھ سکتا ہے ۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو چاہئے کہ وہ غیر شائستہ کلچر کو روکیں ۔سیاسی قائدین کوماں بہنوں کے بارے میں بری زبان سے اجتناب اور مثبت سیاست کو فروغ دینے کی کوشش کرنا چاہئے ۔
ا