امیر محمد خان
ہماری جمہوریت کمزور ترین ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں نے کبھی عوام کے ووٹوں پر انحصار نہیں کیا ، ما سوائے شہید ذولفقار علی بھٹو جنہیں پاکستان کے چاروں صوبوں نے روٹی ، کپڑا اورمکان ، جاگیرداروں، سرمایہ داروںکے خلاف خوش کن نعرے لگائے حالانکہ خود بھی جاگیر دار ہی تھے ، شہری عوام نے نعروں کی بنیاد پر جبکہ دیہی علاقوں اور اندرون ملک پھر زبان،اور علاقائی کی مرکزیت کی وجہ سے جاگیر داروں کو انکے مزاروع نے ہی ووٹ دیا اس طرح عوام جو جمہوریت کا لازمی جز ہیں وہ پھر اپنی آزادآنہ مرضی سے ووٹ دینے سے قاصر رہے ، ذولفقار علی بھٹو نے بے انتہا مقبولیت ملک کے طول و عرض پر میں حاصل کی ۔مرحوم ضیاء الحق کی سیاست میں عمل دخل کی وجہ سے ملک میں سیاسی حکومتوںکا قیام کی ذمہ داری بتدریج عسکری قیادت کے پاس چلی گئی جسکے ذمہ دار ایک مرتبہ پھر سیاست دان ہی تھے جو عوام کے ووٹوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے ان لوگوں سے پس پردہ سیاست میں عمل دخل رکھتے تھے انتخابات لڑنے کے خواہش مند ان سے پوچھ کر سیاسی جماعت کا ٹکٹ لیتے رہے کہ کون برسراقتدار آئے گا ۔ بعد کی آنے والی حکومتیں چاہے وہ میاں نواز شریف کی ہوں یا بے نظیر یا پی پی پی کی سب ہی نے اقتدار کی سیڑھی کیلئے کسی نہ کسی کا کاندھا استعمال کیا ، اسٹیبلشمینٹ پی پی پی ، مسلم لیگ کی کرسیوںکی باری سے تنگ آچکی تھیں انہوںنے نیا چہرہ لانے کیلئے عمران خان پر دست شفقت رکھا اور الییکٹیبلز کو ٹیلیفو ن کالز مراعات کی سنہری خوا ب دکھا کر عمران خان کے حوالے کیا ، اسکے لئے مرحوم ضیا الحق اور مرحوم پرویز مشرف کے دور میٰں ایم کیوایم ، اور مسلم لیگ ق کو میدان میں رکھا ہوا تھا جو انکے چند ووٹ ہر انتخاب میں اپنے آقائوںکے اشاروںپر کسی بھی حکومت کو بنانے یا اکھڑانے میں کلیدی حیثیت اختیار کرگئے ۔ ابتدا میںعوام انکے پا س نہیںتھے جسکے لئے انکے سہولت کاروںنے کینیڈا سے طاہر القادری کی خدمات حاصل کیںانکے مریدوںنے جلسہ بھر دیا ان جلسوںنے اشتہار کا کام کیا اور جم غفیر جلسوںمیں دیکھ کر نوجوان لڑکیاں ، لڑکے اور میاں والی کے عمرانخان کے ہم زبان جلسوں کی رونق بن گئے طاہر القادری کی ڈیوٹی ختم ہوئی وہ شائد اپنا معاوضہ پکڑ کر عازم کینیڈا ہوئے اور آجکل وہ عمران خان کے مخالفین میں ہیں۔ گو عمران خان اپنے محسنوںکے کاندھے پر بیٹھ کر مقبولیت حاصل کی اور اپنی زبان درازی کی وجہ سے اپنے محسنوں کی بدنامی کا بھی سبب بنے چونکہ وہ اپنے ہی بیان کوصبح شام بدلنے میں اپنی ثانی نہیں رکھتے تھے انکے آس پاس بیٹھے کی یا تو سنتے نہیں تھے یا سن کر اپنے در گزر کرکرتے چونکہ وہ اپنے اوپر شفقت کے ہاتھ چاہے وہ کسی وردی کا ہو یا آئین یا قانون کے رکھوالے کا اس کو اولیت دیتے تھے ۔ انہوںنے سیاست کی ابتداء سابقہ حکومتوں کر ’’کرپٹ ‘‘کا لقب دیا اور اس بیانیہ پر صبح شام قائم رہے چاہے وہ ملک کے اندر ہوں یا بیرون ملک کسی عالمی اداروں کے انہوںے کرپشن کو اپنا موضوع بنایا ۔ جبکہ انکی اپنی حکومت میں اندرون خانہ کرپشن اپنی جگہ موجود تھی۔ کرپشن کا اندازہ ملک مین مہنگائی سے لگایا جاسکتا ہے ، عمران خان ایک تعلیم یافتہ شخص ہیںعوام کو اپنے گرد اکھٹا کیا مگر وہ سیاست سے ناواقف ہی نظر آئے سیاست میں اگر حکومت ملے ، وہ ایک دن جاتی بھی ہے ۔ ہمارے ہاں پی پی پی کی حکومت آئی ، مسلم لیگ کی کئی مرتبہ حکومت آئی پانچ سال سے پہلے چلی بھی گئی ، مگر عمران خان نہ جانے کیوں سمجھ بیٹھے تھے اب تاحیات حکومت انہیں کی رہے گی اور کس بھی وجہ سے جسکے متعلق عمران خان خود ہی آج تک روز نئی وجوہات بتاتے ہیں، اگر اسمبلی میں بیٹھ کر سیاست کرتے تو شائد دوبارہ مسند اقتدار میں بیٹھتے ، سیاست میں ’’میں نہ مانوں ‘‘کی کوئی گنجائش نہیں ہے وہ آج بھی کہتے ہیں کہ ہمارے ممبران کے استعفے واپس کردو ہمارے ممبران اسمبلی میں جانے کو تیار ہیں مگر ’میں چوروں ، لیٹروں ‘‘کے ساتھ نہیں بیٹھوںگا۔ یہ کہاں کی سیاست ہے ؟اب قصہ مختصر نوبت 9 مئی کی دہشت گردی تک پہنچ گئی ، گرفتاری اور رہائی کی تگ و دو کے دروان چیف جسٹس سپریم کورٹ کی درخواست پر انہوںنے 9مئی کے واقعات پر یہ کہا کہ میں تو گرفتار تھا مجھے کیاپتہ کیا ہوا، میں مذمت کرتا ہوں جب عدالتوںنے بالٹی بھر کر سابقہ ، اور آئیندہ مقدمات میں( یہ بھی عجیب ضمانتیں تھیں) باہر آکر انہوںنے پھر فرما دیا کہ اگر پھر گرفتار کیا گیا تو پھر ایسا ہی ہوگا ، یہ نہائت شرمناک بات ہے 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ سیاسی ہنگامہ آرائی سے بہت آگے کی بات تھی ، شائد تحریک انصاف ایسا نہ چاہتی ہو مگر عوام کے ہجوم دیکھ کر انہوںنے ایسا ہی عمل کیا کہ جو ایک لطیفے کے بقول چوہے نے شراب پی کر شیر کو للکارنہ شروع کردیا تھا ۔ پاکستان دشمنوںنے تحریک انصاف کے لیڈران کی ہدایات پر ملک کے اہم اداروں کا رخ کیا ، اور شرمناک حد تک شہداء پاکستان کی روح کو تکلیف پہنچائی، ایم ایم عالم بیس پر حملہ ، کور کمانڈر کے گھر حملہ ، جہاںجہاںعسکری شعبے سے متعلق جگہیں تھیں ان پر تہس نہس کردیا ، یہ غیر ملکی ایجنڈا تھا ،اگر تحریک انصاف کے لیڈران اپنی تقاریر میں عوام کو نہ اکساتے تو شائد پھر بھی یہ ہوتا چونکہ شائد یہ طے ہوچکا تھا ، میں 9مئی کو ہندوستان کی خبریں ، چینلز دیکھے ہیں وہ ان واقعات کے دن پاکستان اور عسکری اداروںکی تضحیک کررہے تھے جو اسطرح وہ بھی 9 مئی کے واقعات کے سہولت کار بن گئے ، کسی ملک کے اندرونی معاملات پر بیرون ملک سے مدد طلب کرنا نہائت شرمناک جس پر الطاف حسین کی مذمت کی جاتی ہے اب عمران خان یہ کچھ کررہے ہیں اور ملک سے باہر اداروںکو انٹرویوز کے اپنی روش پر قائم ہیں ، اس میٰں بیروں ملک کے انکے سہولت کار جنکے پاس برطانوی ، امریکی پاسپورٹس ہیں اور اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں اور جو چاہے کہتے ہیں وہ سوشل میڈیا پر پاکستان اور پاکستان کے عسکری اداروں وشخصیات پر کیچڑ اچھال کر لوگوںکو گمراہ کررہے ہیں ، ادھر پاکستان میں عدالتیںان لوگوں کی ضمانتیں دے رہی ہیں جو ان واقعات میںواضح طور پر ملوث ہیں اور کہا جارہا ہے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، قائد اعظم محمد علی جناح کی تصاویر جلانے والے موقع پر ہی موت کے حق دار ہیں ، انکی رہائی کون سے حقوق کی پامالی ہے ؟؟ہمیں کچھ اپنے ملک اور اساس کا سوچنا چاہئے سیاسی سہولت کاری میں حد سے آگے نہیں جانا چاہئے ہماری نئی نسل پہلے ہی سیاسی ڈرامہ بازوںسے نالاں اور افسردہ ہے وہ اس ملک کے مستقبل سے کیا امید رکھیں 9مئی کے واقعات ، اسکے بعد سوشل میڈیا پر اسکا دفاع کرنے والوںپر فوری طور بلا تاخیر مقدمات چلائے جانے چاہئیں تاکہ غیرمعمولی نقصانات کا بلاتاخیر ازالہ ہو سکے۔ جرم کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو انصاف کے تقاضے ہر صورت میں پورے ہونے چاہئیں، انصاف ہونا ہی نہیں چاہئے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔ شائد یہ اہلیت کا فقدان ہے کہ 9مئی کو لگ بھگ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود نہ کسی پر مقدمہ بناء نہ عدالت لگی، عمران خان کا یہ الزام کہ انکی جماعت سے لوگوںکو علیحدہ کرایا جارہا ہے تو انہیں تو معلوم ہے کہ انکی جماعت میں لوگ اکھٹے بھی تو ایک ٹیلفون کال پر ہی ہوئے تھے تو شکائت کسی بات کی انکی جماعت کوئی نظریاتی جماعت تو نہیں تھی یہ تو پکڑ دھکڑکر کے جمع کئے گئے تھے اس لئے اعتراض بنتا نہیں۔