لقمان شیخ-----رْوبْرو
9مئی کو جو ہوا وہ قابل مذمت ہے. کسی سیاسی یامذہبی جماعت کو یہ حق نہیں کہ وہ سرکاری یا فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچائے ،یہ بات ٹھیک ہے جب بھی کسی پاپولر لیڈر کو گرفتار کیا جاتا ہے یا اس پر ظلم کیا جاتا ہے تو اسکا ایک ردعمل آتا ہے اسکے کارکن اور پیروکار احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن اس احتجاج کی آڑ میں فوجی تنصیبات کو آگ لگا دینا کسی بھی محب وطن پاکستانی کو قابل قبول نہیں. بیظیر بھٹو جب شہید ہوئیں تو پورے ملک میں جلاؤ گھراو ہوا انکے کارکنوں نے بھی ردعمل دیا مگر انھوں کسی بھی سرکاری عمارت کو نقصان نہیں پہنچایا تھا. 9 مئی کو جو ہوا اسکے آفٹر شاکس پاکستان تحریک انصاف کو ابھی تک آ رہے ہیں. روزانہ کوئی نہ کوئی پارٹی رہنما پارٹی چھوڑ کر جا رہا ہے. ڈاکٹر شیریں مزاری اور عامر کیانی جیسے عمران خان کے پرانے ساتھی پارٹی کے ساتھ ساتھ سیاست ہی چھوڑ گئے. تحریک انصاف کے رہنما جیل کی چار دیواری سے خوف کھانے لگے ہیں. فواد چوہدری جو کہ جاٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں،گرفتاری کے خوف سے بھاگتے دکھائے دیے. زمان پارک کے باہر جہاں رش رہتا تھا وہاں اب چڑیا بھی پر نہیں مارتی. عمران خان کے تمام ساتھی جیل میں ہیں، کچھ بھاگے ہوئے ہیں،کچھ طاقتور حلقوں کے پریشر سے پارٹی چھوڑ رہے ہیں اور کچھ جیل کے ڈر سے عمران خان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں. خوف کے بادل اتنے گہرے ہیں کہ اب کوئی اپنی زبان پر ریاست مخالف نعرہ لگانا تو دور کی بات، کوئی ایسا اپنے دل و دماغ میں سوچ بھی نہیں سکتا.
انسانی حقوق کی خلاف ورزی سر عام ہو رہی ہے۔لوگوں کو گھروں سے اٹھایا جا رہا ہے ،خواتین کے ساتھ نارواں سلوک اختیار کیا جا رہا ہے۔ عمران خان سوالات اٹھا رہے ہیں ہیں کہ ملک میں اتنا ظلم ہو رہا ہے آئین و قانون کو روندھا جا رہا ہے انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں غائب ہیں۔ عدالتیں تحریک انصاف کے کارکنوں کو رہا کرتی ہیں مگر پولیس پھر انھیں پکڑ لیتی ہے
پاکستان کا آئین انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی حالت مختلف حکومتوں کے دوران مختلف درجہ پر رہی ہے۔ کئی مواقع پر دہشت گردی یا جذوی باغیوں کے خلاف پاسبانی یا فوجی کارروائی کے دوران انسانی حقوق کی پامالی کی مثالیں ملتی ہیں۔ مشرقی پاکستان میں 1970ء بغاوت کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مثالیں ملتی ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائی میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات ہیں۔ دہشت گردی جنگ میں امریکی حمایت کرنے کے بعد انسانی حقوق کی صورت حال قدرے ابتر ہوئی۔ اس دوران بیرونی طاقتوں کی شے پر باغی افراد کے خلاف کارروائی میں انسانی حقوق پامال ہوئے۔
ضیا دور میں پیپلز پارٹی کے اراکین اور سول سوسائٹی پر مظالم ہوئے ،صحافیوں کو کوڑے مارے گئے۔ مشرف دور میں ن لیگ کے کارکنوں اور آئین و قانون کی خاطر آواز اٹھانے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ عمران خان نے بھی اپنے دور حکومت میں صحافیوں اور ن لیگ کے رہنماوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا ،اگرچہ اب وہ اس سب کے ذمہ دار جنرل باجوہ کو ٹھہراتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر آج کل مرحوم مشاہد اللہ کی ویڈیو بہت وائرل ہے جس میں وہ کہتے ہیں وہ جیل جانے سے نہیں ڈرتے مظالم سے نہیں گھبراتے مگر تحریک انصاف والے اس وقت سے ڈریں جب برا وقت ان پر آئے گا تو یہ روئے گے اور کوئی انکے آنسو صاف کرنے والا بھی نہیں ہو گا. مرحوم مشاہد اللہ کی باتیں آج ٹھیک ثابت ہو رہی ہیں.
لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ آج تحریک انصاف کا کوئی اہم رہنما کھل کے بول بھی نہیں رہا. 9 مئی کے واقعہ کی تو کوئی صفائی پیش نہیں کی جا سکتی مگر جو لوگ اس میں ملوث نہیں تھے اور انکو بھی گرفتار کرکے زدو کوب کیا جا رہا ہے اور بار بار گرفتار کیا جا رہا ہے اسکے خلاف تو کوئی آواز اٹھائے.
اب شہباز شریف کا دور ہے اور ظلم و جبر کی صورت حال وہی ہے جو ضیا یا مشرف کو دور میں تھی ،شہباز شریف کہتے ہیں کہ یہ مکافات عمل ہے آخر میں حبیب جالب کے وہ اشعار جو کبھی شہباز شریف مشرف دور میں پڑھا کرتے تھے۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تخت? دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
May 25, 2023