جرأتِ اظہار

بعثت مبارکہ کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد ۳۸ ہوگئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت مآب علیہ التحیۃ الثناء میں عرض کی کہ اب ہمیں کھل کر میدان میں آنا چاہیے اورتبلیغ اسلام کا فریضہ پوری قوت سے انجام دینا چاہیے ، آپ نے ارشاد فرمایا، اے ابوبکر ابھی ہماری تعداد کم ہے، لیکن ان کا اصرار جاری رہا تو آپ نے اس پر صادفرمادیا ، مسلمان آپ کی معیت میں دارارقم سے صحن حرم میں آگئے ، جب لوگ بیٹھ گئے، توحضرت سیدنا ابوبکر صدیق خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے ، یہ اسلام کی طرف سے پہلا اعلانیہ خطبہ تھا، جس کی سعادت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہو رہی تھی، کفار نے یہ خطبہ سناتو آگ بگولہ ہوگئے ، مشتعل ہوکر ، مسلمانوں پر دھاوا بول دیا، خاص پر حضرت ابوبکر صدیق کو اپنے بیمانہ تشدد کا نشانہ بنالیا، آپ کو دھکادیکر زمین پر گرادیا، اوپر چڑھ کرپائوں سے لتارنے لگے اورڈنڈوں سے زردکوب کرنا شروع کردیا، اتنے میں بدبخت سردار عتبہ بن ربیعہ آگیا ، اس نے اپنے بھاری بھرکم جوتے اتارلیے اوران سے آپکے چہرہ اقدس پر پے درپے ضربیں لگانے لگا اورآپ کے پیٹ پر چڑھ کر کودنے لگا، آپ کا چہرہ اس طرح سوج گیا، کہ اسکی سوزش میں ناک نظر بھی نہیں آہی تھی ، آپ کے قبیلہ بنو تیم کو خبر ہوئی تو وہ دوڑے دوڑے آئے، آپکو مشرکین کے نرغے سے نکالاایک کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے آئے، اوراعلان کردیا کہ اگر ان کی ہلاکت ہوگئی تو ہم عتبہ کو ضرور تہہ تیغ کردینگے، حضرت ابوبکر صدیق پر سارا دن غشی طاری رہی ، شام کے وقت کچھ ہوش آیا تو سب سے پہلا سوال یہ کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے۔ یہ سن کر آپکے قبیلے والے بہت ناراض ہوئے اورآپ کو ملامت کرنے لگے اورآپکے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے، آپکی والدہ آپکے پاس اکیلی رہ گئیں، تو انھوںنے آپ تقاضہ کیا کہ کچھ بولیئے، آپ نے ان سے بھی وہی سوال کیا کہ جناب رسالت مآب ﷺ کا کیا حال ہے، انھوںنے کہا مجھے تو کچھ خبر نہیں، آپ نے فرمایا: ام جمیل بنت خطاب سے دریافت کرکے آئیں، وہ آپ کی والدہ کوکچھ بتانے کی بجائے ان کے ساتھ آپ کے گھر آگئیں، انھوںنے آپ کی حالت زار کو دیکھا تو بہت بے قرار ہوئیں، لیکن آپ نے ان سے بھی وہی سوال کیا، انھوںنے کہا ، حضور دارارقم میں خیروعافیت سے ہیں، آپ نے فرمایا: بخدا میں اس وقت تک کچھ کھائوں گا اورنہ پیئوں گا جب تک اپنے آقاکریم کی زیارت نہ کرلوں ، رات سناٹا چھاگیا توآپ اپنی والدہ کا سہارا لے کر گھر سے نکلے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوگئے، آپ کی حالت دیکھ کر حضور پر رقت وگداز طاری ہوگیا، آپ نے مرض میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے جوتوں کی ضربوں کے علاوہ کوئی تکلیف محسوس نہیں ہورہی ،پس حضور میری والدہ کے اسلام کے لیے دعاء فرمادیں ۔ وہ اُسی وقت ایمان لے آئیں۔(ابن کثیر)

ای پیپر دی نیشن